جب ہم توبہ کی راہ پر قدم رکھتے ہیں

جب ہم توبہ کی راہ پر قدم رکھتے ہیں

جب ہم توبہ کی راہ پر قدم رکھتے ہیں تو ہم نجات دہندہ کی مخلصی بخش قوت کو اپنی زندگیوں میں دعوت دیتے ہیں۔

کئی سال پہلے صدر گورڈن  بی ہنکلی کالج فٹ بال کا میچ دیکھنے گئے۔ وہ وہاں پر یہ اعلان کرنے کے لیے آئے تھے کہ سٹیڈیم کا نام ہر دل عزیز اور عرصہ دراز سے کام کرنے والے کوچ کے نام پر رکھا جائے جو ریٹائر ہونے والے تھے۔ ٹیم اپنے کوچ کی تعظیم کےلیے یہ میچ جیتنے کےلیے بے تاب تھی۔ صدر ہیکلی کو کچھ حوصلہ افزا الفاظ کہنے کے لیے کھلاڑیوں کے لاکر روم میں بلایا گیا۔ اُن کے الفاظ سے تحریک پا کر اُس دن ٹیم نے وہ میچ جیتا اور اُس سیزن میں جیت کا ریکارڈ قائم کیا۔

آج میں اُن سے بات کرنا چاہتا ہوں جو اس بات سے فکرمند ہیں کہ شائد وہ زندگی کی دوڑ میں جیت نہیں رہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ ”ہم سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں“ ہو سکتا ہے کہ فٹبال کے کسی سیزن میں ایک بھی میچ ہارا نہ جائے لیکن زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ یسوع مسیح نے کامل کفارہ دیا ور ہمیں توبہ کا تحفہ فراہم کیا — جو امید کی کامل روشنی اور جیت بھری زندگی تک ہمارا راستہ ہے۔

توبہ خوشی لاتی ہے

اکثر توبہ کو ہم غمزدہ اور مایوس کُن چیز تصور کرتےہیں۔ لیکن خُدا کا منصوبہ خوشی کا منصوبہ ہے، غم کا منصوبہ نہیں ہے! توبہ ترقی اور شرف بخشتی ہے۔ ناخوشی تو گناہ کے کر آتا ہے۔ توبہ ہمارا بچ نکلنے کا راستہ ہے! ایلڈر ڈی۔  ٹاڈ کرسٹافرسن کہتے ہیں: ”توبہ کے بغیر زندگی میں کوئی حقیقی ترقی اور بہتری نہیں آتی۔ … صرف توبہ سے ہی ہم یسوع مسیح کے مخلصی بخش فضل اور نجات تک رسائی پاتے ہیں۔ توبہ  … آزادی، خود اعتمادی اور امن کی جانب لے جاتی ہے“میرا پیغام سب کے لیے—خوصوصا نوجوانوں کے لیے ہے کہ—توبہ ہمیشہ مثبت چیز ہے۔

توبہ کی بات کرتے ہوئے ہم صرف خود میں بہتری لانے کی کوشش کی بات نہیں کرتے۔ سچی توبہ اس سے بڑھ کر ہے — اِسے خُداوند یسوع مسیح میں ایمان اور اُس کی گناہوں کی معافی کی قدرت سے تحریک ملتی ہے۔ جیسا ایکڈر ڈیل جی۔ رینلنڈ نے ہمیں سکھایا ہے ”مخلصی دینے والے کے بغیر … توبہ روئیے کی مایوس کُن تبدیلی رہ جاتی ہے“ ہم خود سے اپنا روئیہ تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن صرف نجات دہندہ ہمارے دھبے مٹا اور ہمارے بوجھ اٹھا کر ہمیں اس قابل بنا سکتا ہے کہ فرمانبرداری کی راہ پر خُود اعتمادی اور قوت سے چلیں۔ توبہ کی خوشی، مناسب زندگی گزارنے کی خوشی سےکہیں ذیادہ ہے۔ یہ معافی، دوبارہ سے پاک ہونے اور خُدا کے نزدیک آنے کی خوشی ہے۔ ایک بار جب آپ کو اس خوشی کا تجربہ مل جائے تو اس سے کم کوئی چیز معقول نہیں لگے گی۔

سچی توبہ ہمیں تحریک بخشتی ہے کہ فرمانبرداری کو اپنی ذمہ داری اور — ایک عہد بنا لیں جو پپتسمہ سے شروع ہوتا اور خُدا کی فسح، یعنی عشائے ربانی سے ہر ہفتے اس کی تجدید کریں۔ وہاں ہمیں یہ وعدہ ملتا ہے کہ ”اُس کا روح ہمیشہ [ہمارے] ساتھ رہے گا“ اُس تمام خوشی اور سکون نے ساتھ جو اُس کے مسلسل ساتھ سے نصیب ہوتا ہے۔ توبہ کا یہی پھل ہے جو توبہ کوپُر مسرت بناتا ہے!

توبہ کے لیےاستقلال کی ضرورت ہے

مجھے مسرف بیٹے کی تمثیل بہت پسند ہے۔ وہ اہم موقع جب مسرف بیٹا ”ہوش میں آتا“ ہے بڑا خاص ہے۔ سوروں کے باڑے میں بیٹھے اُس نے یہ خیال کیا کہ ”جو پھلیاں سور کھاتے ہیں ہیں اُنہی سے اپنا پیٹ بھر لے“ بلآخر اُسے احساس ہو گیا کہ صرف اُس نے اپنے باپ کی میراث بلکہ اپنی زندگی بھی ضائع کی ہے۔ اس ایمان کے ساتھ کہ شائد اُس کا باپ اُسے پھر سے قبول کر لے گا—اگر بیٹے کے طور پر نہیں تو مزدور کے طور پر ہی — اُس نے فیصلہ کیا کہ اپنا سر کش ماضی پسِ پشت ڈال کر اپنے گھر واپس لوٹے۔

اکثر میں نے اُس عرصہ کے بارے میں سوچا ہے جب بیٹا اپنے گھر لوٹ رہا تھا۔ کیا کوئی ایسا وقت بھی آیا ہو گا جب اُس نے ہچکچاہٹ میں یہ سوچا ہو گا، کہ”مجھے اپنے باپ کے گھر میں کیسے قبول کیا جائے گا؟“ شائد اُس نے کچھ قدم سوروں کی جانب واپس بھی لیے ہوں۔ تصور کریں کہ یہ کہانی کتنی مختلف ہوتی اگر وہ ہمت ہار دیتا۔ لیکن ایمان اُسے آگے لے جاتا رہا، اور ایمان میں اُس کا باپ انتظار، صبر سے انتظار کرتا رہا،جب تک آخر کار:

”جب وہ ابھی دور ہی تھا تو اُس دیکھ کر اُس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اُس کو گلے لگا لیا اور چوما۔

بیٹے نے اُس سے کہا، اے باپ میں آسمان اور تیری نظر میں گناہگار ہوں۔ اب اس لائق نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلاوں۔

”لیکن باپ نے اپنے نوکروں سے کہا، اچھے سے اچھا لباس جلد نکال کر اِسے پہناو؛ اور اُس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاوں میں جوتی پہناو: …

”کیونکہ میرا یہ بیٹا مردہ تھا لیکن اب زندہ ہے، کھو گیا تھا لیکن اب ملا ہے“۔

توبہ سب کے لیے ہے

بھائیوں اور بہنو ہم سب مسرف ہیں۔ ہم سب کو — عام طور پر ایک سے ذیادہ بار — ”ہوش میں آنے“ اور گھر واپس لوٹنے والے راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ چناو ہمیں پوری زندگی روزانہ کرتے رہنا ہے۔

ہم اکثر توبہ کو بڑے گناہوں کے ساتھ منسلک کرتے ہیں جن کے لیے ”بڑی تبدیلی“کی ضرورت ہو۔ لیکن توبہ سب کے لیے ہے—اُن کے لیے بھی جو ممنوعہ راہوں میں بھٹک رہے اور کھو چکے [ہیں] اور اُن کو بھی جو ”سکڑے اور تنگ راستے“ پر آ چکے ہیں اور اب ”آگے بڑھنے“ کی ضرورت ہے۔ توبہ دو کام کرتی ہے یعنی ہمیں درست راہ پر لاتی اور درست راہ پر رکھتی ہے۔ یہ اُن کے لیے بھی ہے جو حال ہی میں ایمان لائے ہیں، اُن کے لیے بھی جو ہمیشہ سے ایمان رکھتے ہیں اور اُن کے لیے جنہیں دوبارہ سے ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ ایلڈر ڈیوڈ  اے۔ بیڈنار کہتے ہیں: ”ہم میں سے ذیادہ تر واضع طور پر سمجھتے ہیں کہ کفارہ گناہگاروں کے لیے ہے۔ لیکن مجھے نہیں پتہ کہ ہم یہ بھی جانتے اور سمجھتے ہیں یا نہیں کہ کفارہ مقدسین کے لیے بھی ہے—اچھے آدمیوں اور عورتوں کے لیے جو فرمانبردار، اہل اور … بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔“

حال ہی میں میں جب نئے مشنریوں آئے تو اُن کے ساتھ مشنری ٹرینگ سینٹر گیا۔ میں اُن کی آنکھوں میں روشنی دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ وہ بہت پُر نور، خوش اور پُر جوش نظر آ رہے تھے۔ پھر میرے زہن میں یہ خیال آیا: اُنہوں نے ایمان کی مشق کرتے ہوئے توبہ کی ہے۔ اس لیے وہ خوشی اور امید سے معمور ہیں“

میرا یہ مطلب نہیں کہ اُن سب کے ماضی میں سنگین خطائیں تھیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُن کو پتہ تھا کہ توبہ کیسے کرنی ہے؛ اُنہوں نے جان لیا تھا کہ توبہ مثبت چیز ہے اور وہ دنیا میں ساتھ شادمانی کا یہ پیغام بانٹنے کے لیے تیار اور بے قرار تھے۔

جب ہم توبہ کی خوشی محسوس کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ انوس کی مثال دیکھیں۔ وہ اپنے طور پر ”ہوش میں آیا“ اور جب اُس ”کا احساسِ گناہ جاتا رہا“ تو اُس کا دل فورا دوسروں کی مدد کو پھرا۔ انور نے اپنی باقی زندگیلوگوں کو توبی کی دعوت دینے میں گزاری اور ”اس میں دنیا سے بڑھ کر خوشی پائی“ توبہ کا یہی اثر ہوتا ہے؛ یہ ہمارے دلوں کو اپنے ہم عصروں کی جانب پھیرتی ہے، کیونکہ ہمیں یہ پتہ چل جاتا ہے کہ جو خوشی ہم نے محسوس کی ہے وہ ہر ایک کو مل سکتی ہے۔

توبہ جستجوِ تا حیات ہے

میرا ایک دوست ہے جس نے ایامِ آخر کے کم متحرک خاندان مں پرورش پائی۔ کب وہ نو جوانی میں تھا تو اُسے بھی ”ہوش آیا“ اور اُس نے مشن پر جانے کی تیاری کا فیصلہ کیا۔

وہ بہت ہی اچھا مشنری بنا۔ گھر لوٹنے سے ایک دن پہلے مشن کے صدر نے اُس کا انٹرویو لیا ور اُس سے اپنے گواہی بیان کرنے کو کہا۔ ایسا کرنے اور آنسوں کے ساتھ بغل گیر ہونے کے بعد صدر نے کہا ”کچھ ماہ میں ہی آپ نے جو کچھ مجھے بتایا ہے اس کو بھول سکتے یا تردید کر سکتے ہو اگر آپ وہی چیزیں نہیں کرتے رہو گے جس نےآپ کی گواہی کو پہلے تعمیر کیا ہے۔“

میرے دوست نے بعد میں مجھے بتایا کہ جب سے وہ مشن سے واپس آیا ہے، روزانہ دعا کرتا اور صحائف کا مطالعہ کرتا ہے۔ ”خُدا کے عمدہ کلام“ سے نشونما پانے نے اُسے ”سیدھی راہ“پر رکھا ہے۔

آپ جو کل وقتی مشن کی تیار کر رہے ہیں اور جو واپس آ چکے ہیں، اس بات کو پلو سے باندھ لیں۔ صرف گواہی پا لینا ہی کافی نہیں ہے، آپ کو اس قائم رکھنا مضبوط کرنا ہے۔ جیسا کہ ہر مشنری جانتا ہے کہ اگر سائیکل کے پیڈل گھمانا چھوڑ دیے جائیں تو وہ گر جاتی ہے اسی طرح اگر آپ اپنی گواہی کی پرورش کرنا چھوڑ دیں گے تو وہ کمزور ہو جاے گی۔ یہی اصول توبہ پر بھی لاگو ہوتا ہے — یہزندگی میں صرف ایک بار کا تجربہ نہیں بلکہ تا حیات چلنے والی تگ و دو ہے۔

وہ تمام جو معافی کے خواہاں ہیں—بچے، نوجوان اور بڑے، والدین، دادا، دادی، اور ہاں پڑدادی دادی بھی — میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ گھر لوٹ آئیں۔ شروع کرنے کا وقت ابھی ہے۔ اپنی توبہ کے دن میں تاخیر نہ کریں

پھر جب آپ نے یہ فیصلہ کر لیا تو پھر راہ پر چلتے رہیں۔ ہمارا باپ منتظر ہے اور آپ کا استقبال کرنے کے لیے بے چین۔ اُس کے بازو آپ کے لیے ”تمام دن“ کھلے ہیںاور سفرکے اجر کی قدر سفر کی مشکلات سے ذیادہ ہے۔

نیفی کے یہ الفاظ یاد رکھیں: ”امید کی کامل چمک اور خُدا اور تمام آدمیوں سے محبت رکھ کر مسیح ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہو، سو اگر تم مسیح کے کلام میں سیر ہو کر آگے بڑھتے ہرو اور آخر تک برداشت کرو تو دیکھو باپ یوں فرماتا ہے: تم ابدی زندگی پاو گے۔“

بعض دفعہ سفر بہت لمبا لگے گا—یہ سفر ابدی زندگی کی طرف جو ہے۔ لیکن یہ شادمانی کا سفر بھی ہو سکتے ہے اگر آپ یسوع مسیح پر ایمان اور اُس کے کفارہ میں امید کے ساتھ چلیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ جب ہم توبہ کی راہ پر قدم رکھتے ہیں تو ہم نجات دہندہ کی مخلصی بخش قوت کو اپنی زندگیوں میں دعوت دیتے ہیں۔ یہی قوت ہمارے پاوں کو سہارا دے گی، ہمیں وسعتِ نظر بخشے گی، اور آگے بڑھنے کے عزم کو قدم بہ قدم گہرائی بخشے گی، اُس جلالی دن تک جب ہم آخر کار اپنے آسمانی گھر کو لوٹیں گے اور ہمارا آسمانی باپ ہم سے کہے گا، ”شاباش“ یسوع مسیح کے نام میں آمین۔