مسیح کے ساتھ ایک ہو جائیں

مَیں نے نوعُمری سے ہی یِسُوع مسِیح کے کفّارہ کو بڑی گہرائی سے محسُوس کِیا ہے، لیکن نجات دہندہ کے کفّارہ کی حقِیقت میرے سامنے اُس وقت آئی جب مَیں 25 برس کا تھا۔ مَیں نے ابھی ابھی سٹین فورڈ یونی ورسٹی سے لا کی ڈگری حاصل کی تھی اور کیلی فورنیا کے بار کے اِمتحان کی تیاری کر رہا تھا۔

میری والدہ نے فون کِیا اور کہا کہ میرے نانا کروزئیر کِمبل، جو یوٹاہ میں رہتے تھے، بسترِ مرگ پر تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر مَیں اُن کو دیکھنا چاہتا ہُوں تو بہتر یہ ہے کہ مَیں گھر پہنچُوں۔ میرے نانا 86 سال کے تھے اور شدِید علِیل تھے۔ اُن سے مُلاقات بڑی اچھی رہی تھی۔ وہ مُجھے دیکھ کر بُہت خُوش ہُوئے تھے اور اُنھوں نے مُجھے اپنی گواہی بھی بتائی۔

جب کروزئیر صِرف تین سال کے تھے، تو اُن کے والِد، ڈیوڈ پیٹن کِمبل، 44 برس کی عُمر میں اِنتقال کر گئے تھے۔ کروزئیر کو آس تھی کہ اُس کے والد اور دادا ہیبر سی کِمبل اُس کی زِندگی کو قبُول کریں گے اور محسُوس کریں گے کہ وہ اپنے ورثے کے ساتھ وفادار تھے۔

میرے نانا نے مُجھے اِنتہائی بنیادی نصیحت کی تھی کہ اِن بااِیمان آباواجداد کی وجہ سے کسی قِسم کی سہولت یا کوئی فائدہ اُٹھانے کا سوچنا بھی نہیں۔ اُنھوں نے مُجھے بتایا کہ میری توجہ نجات دہندہ اور نجات دہندہ کے کفّارہ پر ہونی چاہیے۔ اُنھوں نے کہا ہم سب پیار کرنے والے آسمانی باپ کے بچّے ہیں۔ اِس سے قطعِ نظر کہ دُنیا میں ہمارے آباواجداد کون ہیں، ہم میں سے ہر ایک نجات دہندہ کو جواب دہ ہو گا کہ ہم نے اُس کے حُکموں کو کس حد تک مانا۔

نانا جی نے ۲ نِیفی ۹:‏۴۱ کا حوالہ دِیا کہ نجات دہندہ ”پھاٹک کا نگہبان“ بھی ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ وہ اُمِّید کرتے ہیں کہ نجات دہندہ کے رحم کے لائق ہونے کے واسطے وہ کافی حد تک توبہ کر چُکے ہیں۔

مُجھ پر اِس بات کا گہرا اثر ہُوا۔ مُجھے معلُوم تھا کہ وہ نیک اِنسان تھے۔ وہ بطریق تھے، اور اُنھوں نے کئی مُنادی کی خِدمات انجام دی تھیں۔ اُنھوں نے مُجھے سِکھایا کہ نجات دہندہ کے کفّارہ کے فضل کے بغیر کوئی بھی صِرف نیک اَعمال کی وجہ سے خُدا کے پاس نہیں جا سکتا۔

نجات دہندہ اور اُس کے کفّارہ کے لیے نانا جان کی بڑی گہری محبّت اور احسان مندی کو مَیں آج تک یاد رکھ سکتا ہُوں۔

2019 میں یروشلیم میں ذمہ داری کے دوران، میں نے بالائی کمرے کا دَورہ کِیا جو شاید اُس جگہ کے قریب تھا جہاں نجات دہندہ نے مصلُوب ہونے سے پہلے اپنے رسُولوں کے پاؤں دھوئے تھے۔

رُوح نے مُجھے چُھوا اورمَیں نے سوچا کہ کس طرح اُس نے اپنے رسُولوں کو ایک دُوسرے سے محبّت کرنے کا حُکم دیا۔

مَیں نے ہمارے لیے نجات دہندہ کی مُناجات والی شِفاعتی دُعا کو یاد کِیا۔ یہ دُعا حقِیقتاً اُس کی فانی زِندگی کے آخِری لمحات میں مانگی گئی جَیسا کہ یُوحنّا کی اِنجِیل میں مرقُوم ہے۔

یہ دُعا مسِیح کے پیروکاروں کے لِیے منسُوب کی گئی تھی

بشمول ہم سب کے لِیے۔ نجات دہندہ کی مُناجات میں اُس نے اپنے باپ سے فریاد کی تھی ”تاکہ وہ سب ایک ہوں؛ یعنی جِس طرح اَے باپ، تُو مُجھ میں ہے، اور مَیں تُجھ میں ہُوں، وہ بھی ہم میں ہوں۔“ نجات دہندہ پِھر کہتے ہیں، ”اور جو جلال تُو نے مُجھے دِیا ہے مَیں نے اُنھیں دِیا ہے؛

تاکہ وہ ایک ہو جائیں، یعنی جَیسے ہم ایک ہیں۔“ اپنے پکڑوائے جانے اور مصلُوب ہونے سے پہلے مسِیح نے یگانگت کی دُعا ہی کی تھی۔

مسِیح اور ہمارے آسمانی باپ کے ساتھ یگانگت نجات دہندہ کے کفّارہ کے وسِیلہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

خُداوند کی نجات بخش رحمت کا انحصار حسب و نسب، تعلِیم، مُعاشی حیثیت، یا رنگ و نسل پر نہیں ہے۔ یہ مسِیح اور اُس کے حُکموں کے ساتھ ایک ہونے کی بدولت ہے۔

1830 میں، نبی جوزف سمِتھ

اور اولیور کاؤڈری کو کلِیسیا کی تنظیم سازی اور حُکومت سازی کے مُتعلق مُکاشفہ عطا کِیا گیا،

جِس کے فوراً بعد کلِیسیا قائم کر دی گئی تھی۔ اب جو فصل ۲۰ ہے اُسے پہلی کلِیسیائی مجلِس میں نبی جوزف نے پڑھا تھا اور مُشترکہ رضامندی سے یہ پہلا مُکاشفہ مانا گیا۔

اِس مُکاشفہ کا کلام واقعی قابلِ ذِکر ہے۔

یہ ہمیں سِکھاتا ہے نجات دہندہ کی اہمیت اور کِردار اور اُس کے کفّارہ بخش فضل کے وسِیلہ سے اُس کی قُدرت اور برکتوں تک کیسے رسائی پائی جائے ۔

نبی جوزف سمِتھ کی عُمر 24 برس تھی اور وہ بے شُمار مُکاشفات پا چُکا تھا

اور مورمن کی کِتاب کا ترجُمہ خُدا کی نعمت اور قُدرت سے کر چُکا تھا۔

جوزف اور اولیور دونوں کو تقرر یافتہ رسُولوں کی حیثیت سے قبُول کِیا جاتا ہے، اِس طرح وہ کلِیسیا کی صدارت کا اِختیار پاتے ہیں۔

آیات ۱۷ سے ۳۶ میں کلِیسیا کے اہم عقائد کا خلاصہ شامِل ہے، جِس میں خُدا کی حقِیقت، اِنسان کی تخلِیق، فناپذیری، اور یِسُوع مسِیح کے کفّارہ کے وسِیلہ سے آسمانی باپ کا منصُوبہِ نجات شامِل ہیں۔

 آیت ۳۷ خُداوند کی کلِیسیا میں بپتِسما کے لِیے ضرُوری شرائط پر مُشتمل ہے۔ آیات ۷۵ تا ۷۹ عِشائے ربانی کی دُعاؤں کو بیان کرتی ہیں جنھیں ہم ہر سبت کے دِن پڑھتے ہیں۔

عقائد، سچّائیاں، مُقدّس رسُوم، اور فرائض

جو خُداوند نے جوزف سمِتھ، بحالی کے نبی، کے وسِیلہ سے مُقرر کِیے ہیں، واقعی انتہائی اہم ہیں۔

بپتِسما کی شرائط، اگرچہ بڑی گہری ہیں، تو بھی مُنفرد انداز سے سادہ ہیں۔ اِن میں بُنیادی طور پر خُدا کی حُضُوری میں فروتنی، شِکستہ دِل اور پشیمان رُوح شامِل ہیں، سارے گُناہوں سے تَوبہ، اپنے آپ پر یِسُوع مسِیح کا نام اوڑھنا، آخِر تک برداشت کرنا، اور اپنے کاموں سے ظاہر کرنا کہ ہم نے مسِیح کا رُوح پایا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ بپتِسما کے لیے ساری اہلیتیں رُوحانی ہیں۔ کسی مُعاشی یا سماجی قابلیت کی ضرُورت نہیں ہے۔ غریب اور امیر کے لِیے رُوحانی شرائط یکساں ہیں۔

حسب و نسب، جِنس، یا قَومِیت کی کوئی شرط نہیں۔

مورمن کی کِتاب صاف صاف بتاتی ہے

کہ سب کو خُداوند کی نیکیوں میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی ہے، ” کالا ہے یا گورا، غُلام ہے یا آزاد، مرد ہے یا عورت؛ …

خُدا کی نظر میں سب ایک جَیسے ہیں۔“ ”سب اِنسانوں پر ایک جیسی عنایت کی گئی ہے، اور کسی کو محرُوم نہیں رکھا گیا۔“

خُدا کے حُضُور ہمیں ”برابری“ عطا کی گئی ہے، لہٰذا اپنے اِختلافات پر زور دینے کا جواز نہیں رہتا۔

بعض لوگوں نے غلط طریقے سے ہماری حوصلہ افزائی کی ہے ”یہ سوچنے میں کہ دُوسرے لوگ ہم سے اور ایک دُوسرے سے اُس سے بھی بُہت زیادہ مُختلف ہیں جتنا کہ وہ حقیقت میں ہیں۔

[بعض لوگ] حقیقی لیکن بُہت چھوٹے چھوٹے اِختلافات کو لے لیتے ہیں اور اُن کو بڑھا چڑھا کر خلِیج بنا دیتے ہیں۔“

اِس کے علاوہ، بعض نے غلط اندازہ لگایا ہے کہ چُوں کہ ساری قَوموں کو اُس کی فضلِیت اور اَبَدی زِندگی پانے کی دعوت دی گئی ہے، چناں چہ چال چلن کی کوئی شرط نہیں ہے۔

البتہ، صحیفے اِس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تمام جواب دہ افراد کو گُناہوں سے تَوبہ کرنے اور اُس کے حُکموں پر عمل کرنے کی ضرُورت ہے۔

 خُداوند صاف صاف فرماتا ہے کہ سب کو اَخلاقی اِرادہ عطا کِیا گیا ہے اور ”کُل بنی نوع اِنسان کے عظیم ثالث کے وسِیلے سے،

وہ آزادی اور اَبَدی زِندگی چُننے میں خُود مُختار ہیں، … اور اُس کے عظیم حُکموں پر کان لگاؤ؛ اور اُس کے کلام کے وفادار رہو، اور اَبَدی زِندگی چُن لو۔

 نجات دہندہ کے کفّارہ کی رحمتیں اور برکتیں پانے کی خاطر، ہمیں مسِیح کو چُننا ہے

اور اُس کے حُکموں پر چلنے کے لیے اپنے اَخلاقی اِرادہ کو مُثبت طور پر اِستعمال کرنے کی ضرُورت ہے۔

میری زِندگی میں، ”مختاری“ اور ”آزاد مرضی“ کے معنی الگ الگ کر کے دیکھے گئے اور بحث کی گئی۔ اِن موضُوعات کے فکری پہلوؤں پر بے شُمار بحث و تکرار ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔

کسی بڑی یونیورسٹی کے سابق طلبا کی اشاعت کے حالیہ سرورق پر، مُمتاز ماہر حیاتیات-پروفیسر نے زور دے کر کہا،

”آزاد مرضی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔“ حیرت کی بات نہیں، پروفیسر کے قَول کا اِس مضمُون میں حوالہ دِیا گیا، ”

خُدا نام کی کوئی شَے نہیں … اور آزاد مرضی کہیں نہیں، … اور یہ صِرف وسِیع و عرِیض، بےحس، خالی کائنات ہے۔“ مَیں اِس کی شدِید مُخالفت کرتا ہُوں۔

ہمارے اِیمان کا بُنیادی عقِیدہ یہ ہے

کہ ہمیں اَخلاقی مختاری، عطا کی گئی ہے جِس میں آزاد مرضی شامِل ہے۔ فیصلہ کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کا نام مختاری ہے۔

یہ نجات کے منصُوبہ کے واسطے اِنتہائی اہم

ہے۔ اَخلاقی مختاری کے بغیر، نہ ہم سِیکھ سکتے ہیں، نہ ترقی کر سکتے ہیں، یعنی نہ مسِیح کے ساتھ ایک ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

اَخلاقی مختاری کی بدولت، ہم ”آزادی اور اَبَدی زِندگی چُننے میں خُود مُختار ہیں۔“ آسمان پر قبل از فانی زِندگی کی مجلِس میں، آسمانی باپ کے منصُوبہ میں مختاری اہم عُنصر کی حیثیت سے شامِل تھی۔ لُوسیفر نے بغاوت کی اور ”اِنسان کی مختاری کو برباد کرنا چاہا۔“

 اِسی واسطے، شیطان اور اُس کے کارِندوں کو فانی بدن پانے کے حق سے محرُوم رکھا گیا۔

فانی زِندگی سے قبل دیگر اَرواح نے آسمانی باپ کے منصُوبہ پر عمل کرنے کے واسطے اپنی مختاری کا مُظاہرہ کِیا۔

اُن رُوحوں کو اِس فانی زِندگی میں مُجسم ہونا نصِیب ہُوا تاکہ مختاری قائم رہے۔ ہم فیصلے کرنے اور عمل کرنے میں آزاد ہیں، لیکن اُن کے نتائج پر ہمارا کوئی اِختیار نہیں ہے۔

”راست بازی اور بھلائی کے فیصلے خُوشی، اِطمِینان اور اَبَدی زِندگی کا سبب بنتے ہیں،

جب کہ گُناہ اور بُرائی کے فیصلے دردِ دِل اور بدبختی کا سبب بنتے ہیں۔“ جَیسا کہ ایلما نے فرمایا، ”بدی خُوش بختی کبھی نہ تھی۔“

اِس شدِید مسابقتی دُنیا میں، آگے بڑھنے کی مُسلسل کوشش جاری ہے۔ سب سے زیادہ بہتر بننے کے لِیے ہمارا محنت کرنا نیک اور قابلِ قدر کاوِش ہے۔ یہ خُداوند کی تعلِیم کے عین مُوافق ہے۔

دُوسروں کو نِیچا دِکھانے یا بے قدری کرنے کی کوشش یا اُن کی کامیابی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا خُداوند کی تعلِیم کے عین مُنافی ہے۔

ہم خُدا کے حُکموں کی خِلاف ورزی کرنے والے فیصلوں کے لیے حالات یا دُوسروں پر الزام نہیں لگا سکتے۔

آج کی دُنیا میں، مادی اور پیشہ ورانہ کامیابی پر توجہ مرکُوز کرنا آسان ہے۔ بعض لوگ اَبَدی اُصُولوں اور فیصلوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جِن کی اہمیت دائمی ہوتی ہے۔

کیا ہم دانِش مند ہو کر صدر رسل ایم نیلسن کی ہدایت پر عمل کریں گے اور ”سوچ آسمانی رکھیں گے۔“

قابلیتوں، صلاحیتوں، مواقعوں، یا معاشی حالات سے قطع نظر تقریباً ہر کوئی اِنتہائی اہم فیصلے کر سکتا ہے۔

خاندان کے فیصلوں کو اَولاً ترجیح دینا بُہت اہم ہے۔ یہ تمام صحائف میں واضح ہے۔ ۱ نِیفی میں اُس واقعہ پر غَور کریں جہاں لِحی ”بِیابان کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔

اور اپنا گھر بار، اور اپنی وراثتی جائداد، اور اپنا سونا، ا

ور اپنی چاندی، اور اپنی بیش قِیمت چِیزیں پِیچھے چھوڑ آتا ہے،

اور اپنے ساتھ اپنے خاندان کے علاوہ کوئی شَے نہیں لاتا۔“

جب ہم زِندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہیں تو بُہت سے اَیسے واقعات رُونما ہوتے ہیں

جِن پر ہمارا بُہت کم یا کوئی اِختیار نہیں ہوتا۔

صحت کے مسائل اور حادثات ظاہر ہے اِسی زُمرے میں شامِل ہوتے ہیں۔

حالیہ کووڈ-19 وبائی مرض نے اُن لوگوں کو بھی بُری طرح مُتاثر کیا ہے جِنھوں نے ہر قدم ٹھیک ٹھیک اُٹھایا تھا۔

سب سے زیادہ اہم فیصلوں کا اِختیار ہمارے پاس ہوتا ہے۔ اپنے مِشنری ایّام کی طرف لوٹتے ہُوئے،

ایلڈر میرئین ڈی ہینکس، ہمارے مشن کے صدر،

نے ہم سب کو ایلا وہیلر ولکوکس کی ایک نظم کا کچھ حِصّہ یاد کرایا تھا:

نہ کوئی موقع، نہ نصِیب، نہ قِسمت ہے،

گھیر سکے یا رکاؤٹ ڈال سکے یا قابُو کر سکے

کسی پُرعزم رُوح کے پُختہ اِرادہ کو۔

اُصُول، چال چلن، مذہبی فرائض کی ادائیگی، اور راست زِندگی گُزارنے کے مُعاملات پر ہمارا پُورا اِختیار ہوتا ہے۔

خُدا باپ اور اُس کے بیٹے، یِسُوع مسِیح پر ہمارا اِیمان اور ہماری عِبادت اَیسا فیصلہ ہے جو ہم خُود کرتے ہیں۔

براہِ کرم سمجھیں کہ مَیں تعلِیم یا پیشے میں کم دِل چسپی کی وکالت نہیں کر رہا ہُوں۔

مَیں جو بات کر رہا ہُوں وہ یہ ہے کہ جب تعلِیم اور پیشے کے مُتعلق کوششیں خاندان سے

یا مسِیح کے ساتھ ایک ہونے سے زیادہ بڑھ کر اہم ہو جاتی ہیں،

تو غیر مُتوقع نتائج شدِید منفی ہو سکتے ہیں۔

عقائد اور عہُود ۲۰ میں بیان کردہ واضح اور غیر مُبہم تعلِیم پُرزور اور پُراثر ہے

کیوں کہ یہ پاک رُوحانی بھیدوں کو وُسیع اور واضح کرتی ہے۔

یہ سِکھاتی ہے کہ نجات اُس وقت مِلتی ہے جب یِسُوع مسِیح تَوبہ کرنے والی جانوں

کو نجات دہندہ کے فضل کی بدولت جائز اور پاک ٹھہراتا ہے۔

یہ اُس کے کفّارہ کے اہم کردار کے لیے راہ تیار کرتی ہے۔

ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ دُوسروں کو اپنے یگانگت کے دائرہ میں شامِل کریں

اگر ہم پردے کے دونوں طرف پراگندہ اِسرائیل کو اِکٹھا کرنے کے

واسطے صدر نیلسن کی نصیحت پر عمل کرنا چاہتے ہیں

تو ہمیں دُوسروں کو اپنے دائرہِ یگانگت میں شامِل کرنے کی ضرُورت ہے۔

مثلاً صدر نیلسن نے بڑی خُوب صُورتی سے سِکھایا ہے:

”ہر براعظم سے اور سَمُندر کے ہر جزیرہ پر سے،

بااِیمان لوگ کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسِینِ آخِری ایّام میں اِکٹھے ہو رہے ہیں۔ ثقافت زبان، جنس، نسل، اور قومیت کا فرق ماند پڑ جاتا ہے

جب بااِیمان لوگ راہِ عہد پر داخل ہوتے اور ہمارے محبوب نجات دہندہ کے پاس آتے ہیں۔“

ہم یِسُوع مسِیح سے اپنی محبّت اور اِیمان کے وسِیلہ سے اور اپنے پیارے

آسمانی باپ کی اُمّت کی حیثیت سے مُتحد ہوتے ہی

حقیقی وابستگی کا اَصل مقصد مسِیح کے ساتھ ایک ہونا ہے۔

 عقائد اور عہُود ۲۰ میں بیان کردہ بپتِسما اور عِشائے ربانی کی رسُوم، ہمارے ہَیکل کے عہُود کے ساتھ مِل کر ہمیں خاص طریقوں سے جوڑتے ہیں

اور ہمیں ہر دائمی اہم طریقے سے ایک ہونے اور سلامتی اور ہم آہنگی سے زِندگی بسر کرنے کے قابِل بناتے ہیں۔

مَیں اپنی ٹھوس اور یقینی گواہی دیتا ہُوں کہ یِسُوع مسِیح زِندہ ہے،

اور اُس کے کفّارہ کی بدولت، ہم مسِیح کے ساتھ ایک ہو سکتے ہیں۔

یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر، آمین۔