اگر آپ خود کوخوف زدہ مکڑیوں اور افعیوں کے ساتھ قطار میں کھٹرا تصورکرتےہیں توآپ اکیلےنہیں جو ایسا محسوس کرتےہیں۔
چاہے ہم قطار میں کھٹرے ہیں ، ٹریفک میں پھنسے ہیں، یا بس کے منظر ہیں ،ہم کو انتظار کرنے سے نفرت کرتےہیں۔
خوش قسمتی سے ،ہمارے لیے ،انتظار کے اوقات حقیقتا برُے خوابین رہے ہیں:ایک موقع خوف ہے مگر روذانہ کا معمول نہیں ہے ۔ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں ہم شاید ہی کسی چیز کا منتظر ہونا پڑتا ہے ۔ ٹیکنالوجی نے ہر چیز کی رفتاربڑھا دی ہے ہم گولڈ فش (نقرئی مچھلی )سے بھی کم عرصہ توجہ رکھتے ہیں ( ہاں ، واقعی)۔
جب انتظار کرنے کی ضرورت ابھرتی ہے۔( جب کبھی انتظار کرناپڑجائے )، ہم اپنا وقت ععموماموبائل ڈیوائس پر دھیان دے کر پوراکرتےہیں۔
فطری طور پر ٹیکنالوجی یا( کارگررگی) غلط نہیں ہے ، مگرتیزرفتارانداززندگی اور توجہ کا مستقخلل شاید ہمیں اس سے کہیں زیادہ اہم کام سے روک رہے ہیں۔

ایک موہ لینے والے صیحفہ سےکہیں زیادہ

تھوڑا عرصہ پہلے میں، باکل بھی اچھا محسوس نہیں کررہی تھی۔ میں اسے سمجھ نہ سکی ۔میں چرچ جا ہری تھی مختصر دعائیں کر رہی تھی ،اور اپنے صحائف پر اُچٹتی نظر ڈال رہی تھی ،میں خال خال ہی روحانی الہام پا رہی تھی ،مگر عموما، میں نے خدا سے رابطہ قدرے منقظع محسوس کیا۔
جب میں آسمانی باپ کو بتایا کہ یہ ایک عجلت بھری دعا ہے ، میرے ذہن میں یہ الفاظ آئے ؛”تسلہ رکھو اور جان للو کہ مں خدا ہوں”( زبور10:46)
ایسا لگتا تھا جیسے تسلی رکھ کے الفاظ پر بہت پر ذورطور سے میری توجہ مرکوز کروائی جا رہی تھی۔
میں شاید سارے کام ٹھیک کر رہی ہونگی، مگر میں انہیں نہایت تیز رفتاری اور ہے تو جہ ہی سے کر رہی تھی ۔میں نے بے دھیانی کے انداز میں انجیل پرعمل کرنا اپنالیا تھا۔
کوئی مذہبی سرگرمیاں میرے لیے روحانی رابطہ کو نہیں لاسکتی تھیں مگر میری شمولیت بے دھیان اور مختصر ہو گی ۔ یہ ایک موہ لینے والے صحیفے سے کہیں زیادہ تھا، خدا کو جاننے اور الہیٰ سرایت کر جانے والے علم کے ساتھ رابطہ جوڑنے کے لیے جس کی مجھے حسرت دھیمااور خاموش ہونے کی ضرورت تھی۔
ان تترغیبات پرعمل پیرا ہونا انتا آسان نہ تھا ۔ مگر اس کو بہت بڑا فرق ڈالا۔

اب، ہمیں دھیما ہونے کی ضرورت ہے ۔۔

نیفی سیکھاتا ہے کہ جوخانقشانی سے ڈھونڈتا ہے پائےگا، اور خدا کے بھید روح القدس کی قدرت سے ظاہر کیے جائیں گے (نیفی19:10 تاکید شامل ہے)۔
آئیں اس آیت کا جائزہ لیں: خدا کے بھید جاننے کے لیے جانفاشانی سے ڈھونڈے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک مستقل اورآزادی سرگرمی ہے،اورایک بارکی انٹرنیٹ کی تلاشی نہیں ہے ۔ پھر ، بھید اچانک نہیں ابھر پڑتے ، وہ بتدیج واضح ہوتے ہیں ۔ اس عمل میں وقت لگتا ہے ۔ اوریہ وقت ضرور ہے ! جو وقت ہم غوروخوص کرنے اورڈھونڈنےمیں صرف کرتے ہیں ہمیں روح کے ساتھ رابطہ کرنے میں موقع دیتا ہے جس کی قدرت سے جوابات ملتے ہیں ۔ صدر ڈیوڈ او مکنے (1970:1873)نے فرمایاہے کہ غور وخوص۔۔ کسی مذہبی موضوع پر گہری مستقل سوچ بچار۔ مقدس ترین دروازوں میں سے ایک ہے جس میں گزر کر ہم خداوند کی حضوری میں آتےہیں۔ دھیما ہونے سے ، ہم مکاشفہ کے لیے ایک در کھول سکتےہیں۔ ہم دنیا کے مروجہ معیاروں سے بالاترہو کر جو الہیٰ ہے اس سے رابطہ کر سکتےہیں۔ ہمیں اس در کی ضرورت ہے ۔ ہمیں دھیما ہونے کی ضرورت ہے ۔

اس کے لیے کوشش درکار ہے۔

میرے لیے ، دھیما ہونے کا گھٹنے ہونا وربلند آواز سے بولنا ہے جب ہم دعا کروں ، میری جسمانی مودب حالت اور میرے اپنے ہولے گئے الفاظ کو سننے سے اپنی توجہ بہتر طور پر برقرار رکھنے میں مدد ملی۔دھیما ہونے کا مطلب صحائف کے سیٹ میں سے مطالعہ کرنا اور نوٹس لکھناہے۔ اس میں زیادہ وقت اور کوشش لگی ، اور وہ زیادہ کوشش اور وقت جاگنے اور اپنی ذہنی قوتوں کو بیدار، کرنے کا اچھا طریقہ ہے یوں روح اور سچائی پانے کی خواہش کو،اپنے اندر کام کرنے اور گواہی کے اس بیج کو جڑ پکڑنے،بڑھنے اور پھل لانے کیااجازت دینا۔(ایلما 37،27:32)ہم چند ایک بٹن دہانے میں سے تقریبا کو ئی بھی معلومات تلاش کر سکتے ہیں، مگرروحانی فہم اور تبدیلی کے لیے وقت اور جانفشاں کوشش درکار ہے ۔ یہ اہم نہیں کہ آپ کیسے دھیمے ہوتےاور انجیل سیکھنے کے لیے کوشش وقف کرتےہیں بلکہ ،صرف یہ اہم ہے کہ آپ ایسا کریں! جب ہمیں معلومات بہ آسانی دستیاب ہوتی ہیں ہم زیادہ تر اپنی ذاتی سیکھ میں اپنی شرکت کو حزف کر دیتے ہیں۔ ہم روح کے ساتھ رابطہ رکھنے کے مواقع حذف کر دیتےہیں۔

ٹیکنالوھی اور سائنسی ترقی جو روزمرہ کے کاموں کو آسان بناتی اور ہمیں اپپنے وقت کو زیادہ موثر طور پر استعمال کرنے کے قابل بناتی ہیں ہم یققناانہیں اپنا سکتےہیں۔ مگر ہم اس بے توجہ طرز زندگی اور سطحی سوچ کو اپنانے کے متحمل نہیں ہو سکتےہیں جو اکثر اس کے نتیجہ میں آتی ہے ۔ انتظار کی حاجت سے خوفزہ ہونے کی بجائے ،ہم اسے دھیما ہونے ، غورو خوض کرنے۔اور روح کے ساتھ اپنے رابطہ کو گہرا کرنے کے موقع کے طور پرقبول کر سکتے ہیں۔