روحوں کی دنیا کہا ں ہے ، ہم انہیں کیسے محسوس کر سکتے ہیں جو دوسری طرف ہیں ۔
روحوں کی دنیا کہا ں ہے ، ہم انہیں کیسے محسوس کر سکتے ہیں جو دوسری طرف ہیں ۔

جیسا کہ، غیر زمینی، جیسا کہ روحوں کی دنیا کے بارے جو ہمیں دکھائی دیتا ہے ۔ صدر برگھم ینگ اور اخری ایام کے دوسرے نبیوں اور رسولوں نے ہمیں بتایا ہے کہ روحوں کی دنیا یہاں زمین پر ہی ہے ۔


موت کے بعدتمہیں بھی پسند آئے گا ٓ؛ روحوں کی دنیا کی بصیرتیں ۔

ایلڈر پارلے پی پریٹ نے تحریر کیا ہے کہ روحوں کی دنیا یہاں اس سیارے پرہی ہے جہاں ہم پیداہوئے تھے،یا اس کے برعکس یا دوسرے لفظوں میں، زمین اور اس قسم کے دائروی سیاروں پر جہاں
جس کے اندر اور باہرروحانی سطحیںیا دائرے ہیں ۔ ایک پر انسان عارضی خیمہ میں اور دوسری روحیں موجود ہیں ۔ ایک دوسرے کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔جس کی وجہ روحانی فضا یا دائرہ عارضیوں سے پوشیدہ ہے ۔ [ علم الہی کی سائنس کی کنجی ] ۔
;بے شک ایک عورت کو اسکے مقتول رشتہ داروں نے اسے اطلاع دی کہ وہ روحوں کی دنیا میں تھی ان سب کی طرح جن کو دوسری دنیا کے تجربات تھییوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سمجھ نہیں رہی تھی کہ وہ اب بھی زمین پر ہے یا اس نے کسی اس کے متعلق کسی عقل مندی کو رپورٹ نہیں کیا تھا [ دیکھو ، موت سے واپسی صفحہ ۸۰]۔

;ڈاکٹر جارج پچی، تاہم ، چند ایک تجربہ کرنے والوں میں دکھائی دیتا ہے جو اصل میں اس کو سمجھتا ہے کہ جو علاقہ یا دائرہ کار اسے دکھایا جا رہا تھا وہ کسی نہ کسی طرح سے اس زمین سے منسلک تھا ۔ اس نے اس مشاہدے کو کئی بار بیان کیاتھااتنا تیز جتنا کہ ہم ایک شہرسے دوسرے شہر تک کے سفر پر غور کر سکتے ہیں اسی طرح جانی پہچانی زمین دکھائی دیتی تھی ،یہاںتک زمین کا وہ حصہ، ریاستہائے متحدہ اور ممکنہ کینڈا تھا۔۔ جسے میں ہمیشہ سے جانتا تھا ، ہزاروں بے طبعی مخلوق کے علاوہ جن کا مشاہدہ میں نے اب کیا ہے ، ـ  عام فضا  میں سکونت پزیر ہیں۔ [ موت سے واپسی، صفحہ ، ۵۸]
رچی نے نہ صرف روحوں کو دیکھا بلکہ اس روح میں بھی شہر کو دیکھا۔ اس نے ریکارڈ کیا ہے ۔ کہ مجھے کیا محسوس ہوتا اگرچہ میرا نقطہ نظر اس دائرہ سے باہر تھا ۔ایک دوسرے شہر کو ہمارے جسمانی شہر کے سپرد کر دیا گیا تھا۔مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ مایوسات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسرے کے وجود سے واقف نہیں ۔ [ مرنے کے بعدمیری زندگی، صحفہ ۲۳]
یہاں تک کہ سیکھنے اور مطالعہ کے عظیم میدان بھی زمین کے میدان میں موجودتھے،اس وقت تک۔مجھے یہ تاثر ملا کہ ہم کس قسم کے مسافر ہیںیہاںتک کہ جوکچھ میرے پاس تھا اسے خود زمین پر خیال نہیں کیا جاسکتاتھا، اعلی طیارے ایک گہری سوچ اورتعلیم جسمانی طور پر زیادہ فاصلے پر نہ تھی جہاںبے جسم ہستیاں ابھی تک جامد یا مستحکم دنیا پرقید تھیں ۔

زمینی مملکت پرقیدکے اس تصور صرف یہ اعتراض صرف جلالی شہر تھا،مسیح کی مانند ہستیاں جن تک اسے پہنچ کی اجازت نہ تھی(یہ جی اٹھی اور سرفراز ہستیاںہو سکتی تھیں؟)تاہم اب،ہمیںدکھائی دیتاہے کہ ہم زمین کوبہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں میںاسے اب نہیںدیکھ سکتا  ۔ (مستقبل سے واپسی صفحہ ۷۲) شاید یہ نبی جوزف سمتھ کے اعلان کاعکس ہے،کہ  فرشتے زمین جیسے سیارے پرنہیںرہتے،بلکہ وہ خداکی حضوری میںرہتے ہیں۔(تعلیم اور عہد؛ ۱۳۰؛۶۔۷)
ریورنڈ نعمان پیل نے اپنی والدہ کی وفات پراپناایک تجربہ بتایاجس نے اسے روحوں کی دنیا کی قربت سکھائی۔ یہ لفظ سننے پر کہ اسکی والدہ رحلت فرما گئی ہے وہ کلیسیا کے قبرستان میں گیا کہ وہ اپنی پیاری والدہ کے نقصان پر سوچے، دعا کریا اور غم کرے۔ اسکی والدہ نے اکثر اسے بتایا تھا کہ جب کبھی وہ ڈائس پر جائیگا وہ وہاں اس کے ساتھ ہوگی اور اسے امید ہے کہ وہ اب بھی اسکے ساتھ ہے ، وہ بیان کرتا ہے ۔
جب میں کچھ دیر کے لئے خاموش بیٹھاپھر ڈائس کو چھوڑ کر اپنے دفتر میں گیا ، اپنے ڈیسک کے سامنے کھڑا ہوا اور ایک بائبل پر اپنا ہاتھ رکھا جو میری والدہ نے مجھے اس وقت دی تھی جب میں تقریبا سترہ سال پہلے ماربل کالجیئٹ کلیسیا کا خادم بنا تھا ۔اس لمحے، میں نے دو مضبوط ہاتھوں کو محسوس کیا ، جو پیالہ نما تھا ، پنکھ کی طرح روشن میرے سر کے پیچھے، اور مجھے اسکی شخصیت کا واضع احساس ہوا کہ یہ سب کچھ درست تھااور کہ وہ خوش تھی ، اور مزید غم نہ کریں۔
بطور سائینسی الہی تعلیم کی پیداوار مجھے اس میں کچھ مشکل تھی، یہاں تک کہ یہ سوچ تھی کہ وہ اپنی مرحوم والدہ کا آرزومند بیٹا تھا ۔ مگر پھر میں نے اس حلقے کے ادب کا مطالعہ شروع کیا اور اسی قسم کی فطرت یا ساخت کو تسخیر کیا جو ہزاروں لوگوں پر واقع ہوئی تھی۔

اس نے میری رہنمائی اس نتیجہ کی طرف کی کہ یہ دوسری دنیا بہت دور کہیں آسمان پر نہیں ہے بلکہ یہ اس دنیا کا متراکب ہے جس میں ہم رہتے ہیںوہ دوسری دنیا اس سے بلند یا کم از کم اسکا ارتعاش زمین کے اس حصے سے مختلف جس پر ہم موجود ہیں اور خط حدود، مخصوص حالات کے تحت اتنا باریک بن جاتا ہے کہ ارتعاش یا دبائو کا احساس ہوتا ہے پس ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے جو بچھڑ گئے ہیں ، ہم سے دور نہیں ۔ ( حقیقی موت نہیں ہے ، اسکے علاوہ۔ مثبت سوچ کا رسالہ، مارچ ۱۹۹۱ صفحہ ؛ ۷۔۹)
پردہ کے اس نظریہ کے بارے چند اور حوالہ جات ہیں اگرچہ حقیقت نہیں ہے کہ روحوں کی دنیا بالکل ہمارے قریب ہے ۔ مورس رالنگز ایک ڈاکٹر اور دوبارہ پیدا ہوا مسیحت نے تسلیم کیا کہ ، رخصت شدہ شخص کمرے میں موجود لوگوں کو دیکھ اور سن سکتا ہے مگر اس کے عوض اسے نہ ہی دیکھا یا سنا جا سکتا ہے ۔بظاہر ، آپکو اور مجھے ہماری اس موجودہ زندگی میں اس روحانی دنیا کی نسبت نا بینا کیا گیا ہے ۔ ( مورس رالنگز، موت کے دروازہ سے بعید یا آگے، صفحہ ۳۸)

ایک نوجوان لڑکی مر رہی تھی جس کے لئے پردہ بہت باریک ہو گیا تھا کہ اس نے بیان کیا ہے کہ اس کو اگلی دنیا قریب دکھائی دے رہی تھی۔ اپنی وفات کے دو دن پہلے ۔۔۔۔۔اس کا سنڈے سکول کا سپرینتنڈینٹ اسے دیکھنے آیا جب وہ روشن لمحات سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔ جب وہ روانہ ہو رہا تھا ، وہ واپس مڑا اور کہا ،  اچھا ڈیزی ، تم جلد ہی اندھیرے دریا کے پار چلی جائو گی، صاف طور پر ، وہ اسکی فوری موت کی طرف اشارہ کررہاتھا ۔ ڈیزی اس حوالہ سے پریشان دکھائی دی ۔  کوئی دریا نہیں ہے اس نے جواب دیا ، کوئی پردہ نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ کوئی لکیر بھی نہیں ہے جو اس زندگی کو دوسری زندگی سے الگ کرتی ہے ،  ( کاموشی سے واپسی ، صفحات؛ ۴۷۔۴۸)

جبکہ دونوں الگ الگ جہان اس دنیا پر ہی کہیں موجود ہیں اور دنیاوی روحانی کی مانند ہے ( دیکھو؛ تعلیم اور عہد؛ ۷۷؛ ۲) بیان جو روحوں کی دنیا میں موت کے بارے تجربات دکھاتے ہیں ، یہ بلا شبہ دونوں سے زیادہ دلپسند ہے ، صدر برگھم ینگ نے ایک سے زیادہ موقعوں پر وسیع فرق بیان کیا ہے ،  میں اخلاص سے اپنے بچھڑے دوستوں اور اپنے جانے کے بارے کہہ سکتا ہوں ، کہ میں ابدیت کو سمجھنے کے کافی قریب رہا ہوں کہ مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے کہ میں اپنی پوری زندگی میں جینے کی پہلے سے زیادہ خواہش رکھتا تھا ۔ آنے والی دنیا کی چمک دمک اور جلال ناقابل بیان ہے 1 ۔ ( جرنل کے خطبات؛ ۱۴۔ ۲۳۱)

اس مضمون کو اس کےاصلی لنک سےپڑھنےکے لیے یہاں کلک کریں ldsliving.com