یہ ڈاک حقیقی طور پر صیحون کے دل پر ظاہر ہوئی ہے ۔ ہم اسے مصنف کی اجازت یہاں پیش کرتے ہیں ۔

پانچ سال پہلے ، میری پچیسوٰیں سالگرہ سے ایک ماہ قبل مجھ میں دماغ کے ٹؤمر کی تشخیص کی گئی ، جسے صوطی خرابی کہتے ہیں ۔ اس کا سائز گالف کی گیند سے تھوڑا بڑا تھا ( جو دماغ کے ٹیومر کی استلاح میں بہت بڑا ہے )۔ ٹیومر کی وجہ سے جو میرے دماغ کی ساق کے مخالف دبا رہا تھا ، ڈاکٹروں کو تشویش تھی کہ ٹیومر مہلک ثابت ہو سکتا ہے اور اسے جتنا جلدی ممکن ہو مٹا دینا یا دور کر نے کی ضرورت ہے ۔میرے بڑے بیٹے کی عمر دو سال اور بیٹی کی عمر صرف چھ ہفتے تھی کہنے کی ضرورت نہیں ، یہ بہت زیادہ پریشانی اور دلسوز دعا کا وقت تھا ۔میرے ذہن میں بہت سے سوالات گردش کر رہے تھے۔ میرے خاندان کے لئے اس کا کیا مطلب ہے ؟ میری باقی کی زندگی کیسی ہوگی ؟ کیا ہو اگر ڈاکٹروں کی فکر پر غور کیا جائے اور یہ کہ یہ مہلک ہے ؟میں اپنے میاں یا خاوند کو دو بچوں کے ساتھ کیسے چھوڑ سکتی ہوں ؟ نامعلوم سوالات زبردست تھے۔ زیادہ تر ایام سرجری تک جو ہم نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش میں گزارے تاکہ اپنے ذہن کو اس حقیقت سے دور رکھ سکوں کہ کیا ہونے والا ہے ، مگر عام طور پر جذبات کے جوہڑ میں جا گرتی۔

سرجری پیچیدہ تھی اور دو ڈاکڑ درکار تھے اور آٹھ گھنٹوں میں مکمل ہونا تھی[ سرجری]سرجری کے بعد ایک ہفتہ ICU اور ہسپتال میں گزارنا تھا ۔ جب گھر جانے کا وقت تھا تو پہلی سرجری کی پیچیدگی کی وجہ سے مجھے ایک اور ہنگامی سرجری کے لئے ہسپتال میں جانا پڑا۔ میں بہت دل برداشتہ ہو گئی تھی ۔

جب میرا خاوند میری خبر گیری کر رہا تھا تو ہمارے بچے خاندان، دوستوں اور کبھی ہماری وارڈ میں اجنبیوں کے ہاں آ جا رہے تھے ۔ پچھے دس دنوں میں میں نے انہیں ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں دیکھا ہے ، اور جانتی تھی کہ ایک اور سرجری ان سے دوری میں اضافہ ہو جائے گا ۔ جب میں صحت یاب ہو رہی تھی تو مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں آٹھ ہفتوں تک پانچ پونڈ سے زیادہ وزن نہ اٹھاؤں اور جھکنے سے بھی اجتناب کروں لہذا جب میں نے اپنے بچوں کو دیکھا تو میں انہیں اٹھانے سے قاصر تھی ۔ اور ان کو میری گود میں رکھنے کے لئے کسی اور کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔ میں ہمیشہ انکی مشکور رہوں گی جنہوں نے اس وقت میرے بچوں کی خبر گیری کی جب میں نہیں کر سکتی تھی۔

پہلی سرجری نے مجھے تکلیف اور متلی میں مبتلا کیا جو مہینوں تک رہا اور میرے سر کا زیادہ حصے کو شیو کیا گیا تھا تاکہ سات انچ گہرا گھاؤ بنایا جا سکے ۔ اس سے میرا ایک کان مکمل طور پر سماعت سے محروم ہو گیا۔ اور خود چلنے کے قابل نہ رہی تھی ۔جیسا کہ میری ابتدائی نس کاٹ دی گئی تھی۔ مشکل بات یہ تھی اس نے مجھے بیوی اور ماں بننے سے محروم کر دیا جو کہ میں چاہتی تھی ۔

جب میں دوسری سرجری کے انتظار میں ہسپتال میں تنہا بیٹھی تھی ۔ تو اسنے مجھے اس دہلیز پر لا کھڑا کیا جو میں ممکنہ طور پر برداشت کر سکتی تھی ۔ میں روئی ۔
زندگی میں نا انصافی کا احساس ایک سبق تھا جو مجھے سمجھنے کی ضرورت تھی ۔ ہمیں میری انجیل سکھاؤ کی ضرورت ہے ’’ سب کچھ جو زندگی میں نا انصافی ہو سکتا ہے ، اسے یسوع مسیح کے کفارہ سے درست کیا جا سکتا ہے ‘‘ مایوسی اور ناانصافی کا احساسجو مجھے ہسپتال کے بستر پر ہوا ، وہ مسیح کے کفارہ کی طاقت سے ، جسمانی ،ذہنی اور جذباتی شفا نے نگل لیا ۔ میری سرجری دونوں بار کامیاب رہی ۔ پچھلے پانچ برسوں میں ، میں کہانتی برکت سے جو وعدہ حاصل کیا وہ پورا ہوا تھا ۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسا کہ ٹیومر اور سرجری کبھی تھے ہی نہیں ۔

ایلڈر ڈیل جی رینلنڈ نے فرمایا۔

’’ اگر زندگی حقیقت میں معقول تھی ،تو میں اور تم کبھی بھی نہیں جی اٹھیں گے ۔ تم اور میں خدا کے سامنے کبھی بے داغ کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہونگے ۔ اس لحاظ سے، میں شکر گزار ہوں کہ زندگی معقول نہیں ہے ۔ خدا کے رحم ، مہربانی اور محبت کے ذریعے ہم سب توقع سے زیادہ حاصل کریں گے ، اس زیادہ جتناہم نے کمیایا ہے ، اس سے زیادہ جتی ہم نے کبھی امید کی ہوگی ۔ہم سے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ہمارے تمام آنسو پونچھ دے گا ، اور پھر موت نہ ہوگی ،ہن غم ہو گا نہ رونا اور نہ ہی کوئی رکلیف یا پریشانی ہوگی ،کیونکہ پرانی چیزیں جاتی رہیں ‘‘

زندگی بے امصاف ہے ۔ یہ نا انصافی ہے کہ میرے دو بھائی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی کہ سننے میں تھوڑی سی کمی ہوگی ۔ جائزہ لیا گیا کہ میری زندگی ممکنہ طور پر بچائی گئی ہے ۔ یہ نا انصافی ہے کہ میں بیس منٹ تک دماغ کے ٹیومر کے ملک کے بہترین سرجن کے ساتھ گزارے ۔ یہ ان لوگوں کے لئے نا انصافی ہے جو اسی قسم کے ٹیومر میں مبتلا تھے ان کو چہرے کے فالج ، بینائی کا ضیائیا عضوی فعل کا ضیاء میں چھوڑ دیا تھا ۔

اور مجھے کوئی ظاہری معاون تقصان نہیں ہوا ۔ یہ نا انصافی ہے کہ ہمارا نجات دہندہ یسوع مسیح کامل ہوتے ہوئے بھی بدرجہ اتم قربانی برداشت کرنا پڑی ۔ یہ نا انصافی ہے کہ اس کے دکھ اٹھانے سے میں نے جسمانی ، جزباتی اور روحانی شفا پائی ہے ۔ یہ نا انصافی ہے کہ میں نا قامل ہو کر بھی یسوع مسیح کے کفارہ کے ذریعے اپنے آسامنی باپ کے سامنے بے عیب کھڑی ہونے کے قابل ہوں ۔ میں اپنی شکر گزاری بیان نہیں کر سکتی کہ زندگی بے انصاف ہے ۔ یہ میرے حق میں پیار کرنے والے باپ جو آسمان میں ہے کی وجہ سے لا محدود طور پر نا انصاف ہے ۔

میں گواہی دیتی ہوں کہ جب ہم مسیح کے پاس آتے ہیں اور کفارہ کا استعمال کرتے ہیں تو ہم صحائف میں موجود وعدوں کو حاصل کر سکتے ہیں ، کہ خدا ہماری آنکھوں کے تمام آنسو پونچھ دے گا ، اور سب ٹھیک کر دیا جائے گا۔