کیا میں کسی کی تبدیلی کے عمل میں مدد کر سکتا ہوں؟

کیا میں کسی کی تبدیلی کے عمل میں مدد کر سکتا ہوں؟

جی ہاں۔ لیکن آپ کا کردار آپ کے خیال سے مختلف ہو سکتا ہے۔

ہمیں تبدیلی کی صلاحیت کے ساتھ تخلیق کیا گیا تھا۔ ہمارے فانی تجربے کا مقصد ہمارے الٰہی مقدور کی جانب پی

ش رفت ہے۔ خدمت گزاری کا ہمارا ایک بنیادی مقصد دوسروں کو مِسیح کی طرف رجوع لانے اور اُس کی حضوری میں واپس جانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کرنے میں مدد دینا ہے۔ لیکن اُن کی آزادی اِنتخاب کی وجہ سے، مِسیح کی مانند بننے میں مدد کرنے کا ہمارا کردار محدود ہوتا ہے۔

مُنّجی کی جانب سے تبدیلی کی کوشش کرنے اور مزید اُس کی مانند بننے میں دوسروں کی مدد کرنے کے طریقوں کے ضمن میں یہ سات اثر پذیر اسباق ہیں۔

  1. تبدیلی کی دعوت دینے کے لیے خوف زدہ مت ہوں

    مُنّجی دوسروں کو فرسودہ طریقوں کو پیچھے چھوڑنے اور اُس کی تعلیمات کو قبول کرنے کی دعوت دینے سے خوفزدہ نہیں تھا۔ اُس نے پطرس اور یَعقُوب کو اپنا کام چھوڑنے اور ”آدم گِیر بننے“ کی دعوت دی (مرقس ۱: ۱۷)۔ اُس نے زنا میں پکڑی جانے والی عورت کو دعوت دی کہ ”جا، پِھر گُناہ نہ کرنا“ (یُوحنّا ۸: ۱۱)۔ اُس نے مالدار نوجوان کو دُنیاوی چیزوں سے دور ہونے اور اُس کی پیروی کرنے کی دعوت دی (دیکھیں مرقس ۱۰: ۱۷–۲۲)۔ دوسروں کو تبدیل ہونے اور مُنّجی کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ہم بھی دونوں بے باک اور شفیق ہو سکتے ہیں۔

  2. یاد رکھیں یہ تبدیلی کا انتخاب اُن کا ہے

    مُنّجی جس تبدیلی کی دعوت دیتا ہے اُسے زبردستی مسلط نہیں جا سکتا۔ مُنّجی نے سکھایا اور دعوت دی، لیکن جبر نہیں کیا۔ وہ مالدار جوان ”غمگِین ہوکر چلا گیا“ (متّی ۱۹: ۲۲)۔ کفر نحُوم میں، اُس کے شاگِردوں میں سے بہُتیروں نے ”اُلٹے پِھرنے“ کا انتخاب کیا، اور اُس نے بارہ سے پوچھا کیا وہ بھی چلے جانا چاہتے ہیں (دیکھیں یُوحنّا ۶: ۶۶–۶۷)۔ یُوحنّا بپتسمہ دینے والے کے چند شاگِردوں نے نجات دہندہ کی پیروی کرنے کا انتخاب کیا، باقیوں نے ایسا نہیں کیا (دیکھیں یُوحنّا ۱: ۳۵–۳۷؛ ۱۰: ۴۰–۴۲)۔ ہم دوسروں کو اُس کی مانند بننے کی دعوت دے سکتے ہیں، لیکن ہم اُن کے لیے تبدیل ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اور اگر اُنھوں نے ابھی تک تبدیل ہونے کا انتخاب نہیں کیا، تو ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے—نہ ہی ہمیں ایسا محسوس کرنا چاہیے کہ ہم ناکام ہو گئے ہیں۔

  3. دوسروں کی تبدیل ہونے کی استعداد کے لیے دُعا کریں

    اُس کی شفاعتی دُعا کے دوران، یِسُوع نے خُدا سے یہ درخواست کی کہ اُس کے شاگِرد برائی سے دور رہیں، وہ باپ اور اُس کی مانند ایک ہوں اور خُدا کی محبت سے معمور ہوں (دیکھیں یُوحنّا ۱۷: ۱۱، ۲۱–۲۳، ۲۶)۔ اور جانتے ہوئے کہ پطرس کو اُس کے کردار میں آگے بڑھنے کے لیے طاقت درکار ہو گی، مُنّجی نے اُس کے لیے دُعا کی (دیکھیں لُوقا ۲۲: ۳۲)۔ دوسروں کے لیے ہماری دُعائیں تبدیلی لا سکتی ہیں (دیکھیں یَعقُوب ۵: ۱۶)۔

  4. اُنھیں اُس کی طاقت پر بھروسہ کرنا سکھائیں

    صرف نجات دہندہ کی بدولت ہم حقیقی معنوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں اور اپنے الٰہی مقدور کی جانب ترقی پاسکتے ہیں۔ وہ ”راہ، حق، اور زندگی ہے، کوئی [اُس کے] وسِیلہ کے بغَیر باپ کے پاس نہیں آتا“ (یُوحنّا ۱۴: ۶)۔ یہ اُس کی طاقت ہے کہ جو ”کمزور چیزوں کو مضبوط بنا سکتی ہے“ (عیتر ۱۲: ۲۷)۔ اُس کی کفارہ دینے والی طاقت پر اِیمان کی بدولت ایلما بیٹا تبدیلی کے قابل بنا (دیکھیں ایلما ۳۶: ۱۶–۲۳)۔ ہم دوسروں کو مُنّجی پر بھروسہ کرنا سکھا سکتے ہیں تاکہ وہ بھی اپنی زندگیوں میں پاکیزگی کی طاقت پا سکیں۔

  5. اُن کی استعداد کے موافق برتاؤ کریں

    پیار اور قبولیت تبدیلی کے لیے پُر اثر عناصر ہو سکتے ہیں۔ کنویں پر ملنے والی عورت ایک ایسے مرد کے ساتھ رہتی تھی جو اُس کا شوہر نہیں تھا۔ یِسُوع کے شاگِرد ”تعجب کرنے لگے کہ وہ عورت سے باتیں کررہا ہے“ (یُوحنّا ۴: ۲۷)، لیکن یِسُوع نے اُس امر کی طرف زیادہ توجہ مزکور کی کہ وہ کیا بن سکتی ہے۔ اُس نے اُسے سکھایا اور اُسے تبدیلی کا موقع فراہم کیا، جو اُس نے قبول کیا۔ (دیکھیں یُوحنّا ۴: ۴–۴۲۔)

    جب ہم دوسروں کے ساتھ اُن کے مستقبل میں تبدیلی کی استعداد کے بجائے اُن کی موجودہ حیثیت کے موافق رویہ رکھتے ہیں، تو ہم اُنھیں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ اِس کے بجائے، ہم ماضی کی غلطیوں کو معاف کر سکتے اور اِنھیں بھولا سکتے ہیں۔ ہم یہ اِیمان رکھ سکتے ہیں کہ دوسرے لوگ تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ہم خامیوں کو نظر انداز اور اُن مثبت پہلوؤں کو اجاگر کر سکتے ہیں جو وہ اپنے آپ میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے ”ہم پر افراد کو اُن کی موجودہ حالت کے بجائے اُنھیں اُس نگاہ سے دیکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو وہ بن سکتے ہیں۔“۱

  6. اُنھیں اپنی رفتار کے مطابق تبدیل ہونے دیں

    تبدیلی میں وقت لگتا ہے۔ ہم سب کو ”صبر کے ساتھ چلتے رہنا چاہیے جب تک کہ [ہم] کامل ہو جائیں“ (عقائد اور عہود ۶۷: ۱۳)۔ یِسُوع دوسروں کے ساتھ تحمل سے پیش آیا اور اپنے باپ کی جانب سے سونپی گئی ذمہ داری کی گواہی اور لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے، اُس نے حتی کہ اُن لوگوں کو بھی تعلیم دینا جاری رکھا جنہوں نے اُس کی مخالفت کی (دیکھیں متّی ۱۲: ۱–۱۳؛ یُوحنّا ۷: ۲۸–۲۹)۔ ہم دوسروں کے ساتھ تحمل سے پیش آ سکتے ہیں اور انہیں صبر کرنے کی تلقین کر سکتے ہیں۔

  7. اگر وہ پرانے راستوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو ہمت مت ہاریں

    مِسیح کی موت کے بعد، حتی کہ پطرس اور چند دیگر رسول بھی اپنی پرانی راہوں پر واپس پلٹ گئے (دیکھیں یُوحنّا ۲۱: ۳)۔ مِسیح نے پطرس کو اِس امر کی یاد دہانی کروائی کہ اُسے ”[اُس کی] بھیڑیں چرانے“ کی ضرورت ہے (دیکھیں یُوحنّا ۲۱: ۱۵–۱۷)، اور پطرس واپس خدمت کرنے لگا۔ اپنے سابقہ اطوار پر واپس پلٹ جانا بہت آسان ہو سکتا ہے۔ ہم شائستہ حوصلہ افزائی اور الہامی دعوت دیتے ہوئے نجات دہندہ کی پیروی کرنے اور مزید اُس کی مانند بننے کی کوشش کرنے میں مدد کرنا جاری رکھ سکتے ہیں۔

دوسروں کو آگے بڑھنے کی اجازت دیں

بارہ رسولوں کی جماعت کے بزرگ جیفری آر ہالینڈ دوسروں کو آگے بڑھنے کی اجازت دینے کے متعلق کہانی سناتے ہیں: ”مجھے ایک دفعہ ایک جوان آدمی کے متعلق بتایا گیا تھا جو بہت سالوں سے کم و بیش اپنے سکول میں ہر قسم کے مذاق کا نشانہ بن چکا تھا۔ اُس میں کچھ خامیاں تھیں، اور اُس کے ساتھیوں کے لیے اُسے چھیڑنا آسان تھا۔ بعد ازاں اُس نے وہاں سے نقل مکانی کر لی۔ وہ آخر کار فوج میں شامل ہو گیا اور وہاں اُسے تعلیم حاصل کرنے اور اپنے ماضی سے دور جانے کے کامیاب تجربات حاصل ہوئے۔ سب سے بڑھ کر، جیسا کہ فوج میں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں، اُس پر کلیسیا کی خوبصورتی اور وقار آشکار ہوا اور وہ فعال ہو گیا اور اِس میں خوش رہنے لگا۔

”پھر، چند سالوں کے بعد، وہ اپنے بچپن کے قصبے میں واپس لوٹا۔ اُس کی عمر کے زیادہ تر لوگ زندگی میں آگے بڑھ چکے تھے مگر اُن کا رویہ پہلے جیسا تھا۔ بظاہر، جب وہ انتہائی کامیاب اور نئی زندگی کے حامل شخص کے طور پر واپس لوٹا، تو وہی پرانی ذہنیت اب بھی موجود تھی، جو اُس کی واپسی کی منتظر تھی۔ اُس کے آبائی قصبے کے لوگوں کے لیے، وہ وہی پرانا ’گھٹیا انسان‘ تھا۔ …

”دھیرے دھیرے اُس آدمی کی ماضی کو بھولنے کی پولُس رسول کی مانند کوششیں اور خُدا کے عطا کردہ انعام کی گرفت کے لیے استقامت بتدریج کم ہوتی گئی تاوقتیکہ اُس کی اپنی جوانی کے ایام کی طرح ماضی میں رہتے ہوئے وفات ہو گئی۔ … یہ نہایت بری، بہت افسوس ناک بات تھی کہ وہ دوبارہ ایسے لوگوں میں گھِر گیا … جو سمجھتے تھے کہ اُس کا ماضی اُس کے مستقبل کی نسبت زیادہ دلچسپ تھا۔ وہ اُسے اُس گرفت سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے جس کے لیے مِسیح نے اُسے اپنی امان میں لیا تھا۔ وہ افسردہ وفات پا گیا، اگرچہ اِس سب میں اُس کی بھی معمولی سی غلطی تھی۔ …

لوگوں کو توبہ کرنے دیں۔ لوگوں کو آگے بڑھنے دیں۔ یقین رکھیں کہ لوگ تبدیل اور بہتر ہو سکتے ہیں۔“۲