وہ خدمت کروانے نہیں بلکہ خدمت کرنے آیا ہے

وہ خدمت کروانے نہیں بلکہ خدمت کرنے آیا ہے

دوسروں کی دیکھ بھال کرنے کی ہماری قابلیت بڑھ جاتی ہے جب ہم اُنکے ساتھ بامقصدتعلقات استوار کرتے ہیں۔

دوسروں کی خدمت کرنے کی دعوت اُن کے ساتھ دیکھ بھال کاتعلق استوارکرنے کا ایک موقع ہے—اِس نوعیت کے تعلقات جس میں وہ ہماری مدد مانگنے یا قبول کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ جب ہم اِس نوعیت کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو خُدا دونوں جانب کے تعلقات کی زندگیوں کو بدلنے کے قابل ہوتا ہے۔

ریلیف سوسائٹی کی صدارتی مجلسِ اعلٰی میں مشیر دوم، شیرون یوبنک نے فرمایا،”میں واقعی یقین رکھتی ہوں کہ اہم تعلقات کے بغیر اہم تبدیلی ممکن نہیں ہے۔“ اوردوسروں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے اعمالِ خدمت کو، اُس نے فرمایا، لازماً ” شفا دینے اور سُننے، اور تعاون کرنے،اور احترام کی مخلص خواہش میں سرایت کیا ہونا چاہیے۔“۱

بامقصدتعلقات حربے نہیں ہیں۔ یہ رحم،مخلص کوششوں، اور ” حقیقی محبت“ پر تعمیر ہوتے ہیں (تعلیم و عہود ۱۲۱: ۴۱)۔۲

تعلقات استوار اورمضبوط کرنے کے طریقے

”ہم ایک وقت میں ایک شخص سے [تعلقات]استوار کرتے ہیں،“ بارہ رسولوں کی جماعت کے بزرگ ڈئیٹر ایف۔ اُکڈرف نے فرمایا۔۳ جب ہم اُن کے ساتھ بامقصد تعلقات استوار کرتے ہیں کہ جن کی ہم خدمت کرتے ہیں، تو رُوحُ القُدس ہماری راہنمائی کر سکتا ہے۔ ذیل کی تجاویز اُس نمونہ پر مبنی ہیں جو بزرگ اُکڈرف نے پیش کیا ہے۔۴

  • اُن کے بارے میں جانیں۔

    صدر عزرا ٹافٹ بینسن ( ۱۸۹۹–۱۹۹۴) نے سیکھایا، ” جنہیں آپ بہتر طور پر جانتے نہیں آپ اُن کی بہتر خدمت نہیں کر سکتے ہیں۔“ اُنہوں نے تجویز کیا کہ ہر رکنِ خاندان کے نام جاننااور جنم دِن، برکات، بپتسمے، شادیوں جیسے اہم مواقعوں سے باخبر ہوناچاہیے۔ یہ اُنھیں ایک نوٹ لکھنے یا رکنِ خاندان کی خاص کامیابی و کامرانی پرمبارک دینے کے لئے کال کرنے کاموقع فراہم کرتا ہے۔۵

  • اِکٹھے وقت گزارنا۔

    تعلق کو فروغ پانے میں وقت لگتا ہے۔ رابطہ قائم رکھنے کے مواقعوں کی تلاش کریں۔ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ صحت مندانہ تعلقات کے لئے لوگوں کو بتانا ضروری ہے کہ آپ فکر کرتے ہیں۔۶ جن کی خدمت کرنے کے لئے آپ بُلائے گئے ہیں اُن سے اکثر مُلاقات کریں۔ چرچ میں اُن سے بات چیت کریں۔ جو بھی اضافی میسر وسائل سمجھ میں آئیں—جیسے ای میل، فیس بُک، انسٹاگرام، ٹیوٹر، سکائپ، فون کالیں ، یا کارڈ بھیجنا —اُنکا استعمال کریں۔ بارہ رسولوں کی جماعت کے بزرگ رچرڈ جی۔ سکاٹ ( ۲۰۱۵–۱۹۲۸)نے محبت اور تعاون کے سادہ اور تخلیقی اظہارات کی طاقت کے بارے کہا: ”میں اکثر اپنے صحائف کھولتا ہوں، …اور میں ایک پیار بھرا، معاونتی نوٹ پاتا ہوں جو جینی [میری بیوی]نے صفحات میں رکھا ہوتا تھا۔ … وہ قیتمی نوٹ…انمول تسلی اور الہام کا بیش قیمت خزانہ ہے۔“۷

    یہ بھی یاد رکھیں، کہ تعلقات دو طرفہ ہونے چاہیۓ۔ آپ محبت اور دوستی پیش کرسکتے ہیں، مگر جب تک پیشکش قبول اور لوٹائی نہ جائے تعلقات فروغ نہیں پائیں گے۔ اگر دوسرا شخص قبول نہیں کرتا تو اُسے تعلقات پروان چڑھانے پر مجبور مت کریں۔ اُس کو اپنی مخلص کاوشوں کو دیکھنے ( سمجھنے )کے لئے وقت دیں، اور اگر ضروری ہو، تو اپنے راہنمائوں سے مشورت کریں آیا کہ اب بھی بامقصد تعلقات کا امکان ممکن ہے یا نہیں۔

  • احتیاط سے گفتگوکریں۔

    بامقصد تعلقات استوار کرنا ہم سے سطحی تعلق سے آگے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ سطحی تبادلہِ خیال شیڈول(معمولات)، موسم، اور دیگر معمولی معاملات کے بارے مختصر بات چیت سے معمور ہوتا ہے، مگر اِس میں بامقصد رابطے قائم کرنے کے لئے ضروری احساسات، اعتقادات، تفکرات،اور مقاصد کا اشتراک شامل نہیں ہوتا ہے۔ آسمانی باپ نے اِس مزید بامقصدقسم کے تبادلہِ خیال کا اپنے بیٹے ( دیکھئے یوحنا۵: ۲۰) اور ہمارے ساتھ اپنے انبیاء ( دیکھئے عاموس ۳: ۷)کے ذریعے اپنے احساسات اور منصوبے بانٹ کر نمونہ دیا ہے۔ روز مرہ کے واقعات اور زندگی کی چنوتیوں کا رُوحُ کی راہنمائی کے موافق، ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہوئے ، ہم ایک دوسرے کے لئے قدرپاتے ہیں جب ہم عام مفادات اورمشترکہ تجربات تلاش کرتے ہیں۔

    غور سے سُننا گفتگو کا وہ نازک حصہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ آپ فکر کرتے ہیں۔۸ جب آپ غور سے سُنتے ہیں، تو دوسروں کو مسیح کے پاس لانے میں مدد دینے کا آپکاموقع بڑھ جاتا ہے جب آپ اُن کی ضروریات کا فہم اور بصیرت پاتے ہیں اور جب وہ محفوظ، سمجھے گئے اور محبت کیے گئے محسوس کرتے ہیں۔