کیا ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کو قتل کے جرم سے معافی مل سکتی ہے؟

میرا بیٹا شیزوفرینیا کا مریض ہے، اُس نے ایک شخص کو قتل کر دیا اور اب جیل میں ہے۔

میں ہمیشہ اس امید پر قائم رہا ہوں کہ چونکہ اُسے ذہنی بیماری ہے، ایک دن اُسے مکمل شفا ملے گی اور اُسے ابدیت میں معافی مل جائے گی۔ تاہم، جب میں نے آج تعلیم و عہد 42:18 پڑھی، تو ایسا لگا جیسے اُسے کبھی معافی نہیں ملے گی۔ میں اپنے بیٹے کو جانتا ہوں اور اُس کے دل کو بھی۔

جب سے وہ دوا پر ہے، وہ اس عمل پر انتہائی شرمندہ، نادم اور افسردہ ہے۔ کیا اُسے واقعی کبھی معافی نہیں ملے گی؟

"پیاری ایلین
مجھے آپ پر، آپ کے بیٹے پر اور آپ کے پورے خاندان پر اس آزمائش کے لیے سخت افسوس ہے۔

میں صرف اندازہ لگا سکتی ہوں کہ آپ کے لیے یہ کتنا دل دہلا دینے والا ہوگا۔تعلیم و عہد 42:18 اور اِس جیسی بہت سی آیات بظاہر بہت ’قطعی اور حتمی‘ لگتی ہیں۔

لیکن ہمیں اُن چیزوں کے بارے میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جو فیصلہ کرنے کا اختیار ہمیں نہیں دیا گیا۔

میری مراد محض اپنے بیٹے کی مذمت کرنے سے نہیں ہے، بلکہ اُس کے لیے امید چھوڑ دینے سے بھی ہے۔ امید ترک کرنا درحقیقت خُداوند سے اعتماد اُٹھا لینا ہے۔
ہزار سالہ بادشاہت کے اختتام پر حتمی فیصلے تک، امید کی ہر وجہ موجود ہے۔ میں آپ کو خالی یا جھوٹی امید نہیں دینا چاہتی — صحیفے واضح ہیں کہ یہ ایک بہت سنگین گناہ ہے۔ لیکن یہ کچھ آیات ہیں جو ہمیں سمجھاتی ہیں کہ اِس صورتِ حال میں بھی امید کی گنجائش موجود ہے:”

 تعلیم و عہد45.54

اور پھِر غیر قَوموں کی مُخلصی ہوگی

اور وہ جو شَرِیعت سے لاعلم تھے پہلی قیامت میں شریک ہوں گے؛

اور یہ اُن کے لیے قابلِ برداشت ہو گا۔

"میں ڈائیونگ (غوطہ خوری) کی تربیت لیتے ہوئے بڑا ہوا، اور سیکھا کہ جب جج غوطے کا اسکور دیتے ہیں، تو وہ عملدرآمد دیکھتے ہیں:

کیا داخلہ بالکل سیدھا تھا؟ کیا پیروں کے پنجے نوکدار تھے اور صرف چھوٹا سا چھینٹا اُٹھا؟
پھر وہ ایک غیرمعمولی کام کرتے ہیں: وہ مشکل کی ڈگری کو مدِنظر رکھتے ہیں۔

ہر شخص اپنی مخصوص مشکل کی ڈگری کے ساتھ غوطہ لگا رہا ہے۔ اور آپ کا نجات دہندہ ہی وہ واحد ہستی ہے جو حقیقتاً جانتا ہے کہ آپ کس قدر دشواری کے ساتھ یہ غوطہ لگا رہے ہیں۔
میں اُس ایک ذات کے ساتھ تعلق چاہتا ہوں جو مجھے سمجھتی ہے

— جو میرےدل کوجانتی ہے اور جانتتی ہے کہ میں کتنی کوشش کر رہا ہوں۔!”

" ایلما 24  مَیں اوراِس کے اردگرد کی کہانی میں، یہ واضح طور پر لگتا ہے کہ قتل کرنے والوں کے لیے بھی معافی ممکن ہے:”

اور دیکھو، مَیں اپنے خُدا کا اِس لِیے بھی شُکر گُزار ہُوں، کہ یہ دوستانہ تعلُقات بحال کرنے سے ہمیں اپنے گُناہوں،

اور اُن بے شُمار ہلاکتوں کا احساس ہُوا تھا جِن کے ہم مُرتکب ہُوئے تھے۔

اور اب دیکھو، میرے بھائیو، بس یہی سب کُچھ تھا جو ہم کر سکتے تھے

(کیوں کہ ہم سب بنی نوعِ اِنسانوں میں سے سب سے زیادہ گُم راہ تھے) کہ ہم اپنے گُناہوں اور بُہت بڑی قتل و غارت جِن کے ہم مُرتکب ہُوئے تھے، اُن سے تَوبہ کریں،

اور خُدا غالِب آئے تاکہ اُنھیں ہمارے دِلوں سے مِٹا دے،

اِس کے لِیے ہم صِرف اِتنا کر سکتے تھے کہ خُدا کے حُضُور لائق طور سے مُعافی مانگیں کہ وہ ہمارے داغ دوُر کر دے

اب میرے عزیز ترین بھائیو، چُوں کہ خُدا نے ہمارے سارے داغ دُور کر دیے ہیں، اور ہماری تلواریں چمک دار بن گئی ہیں،

تو آؤ ہم اپنے بھائیوں کے خُون سے اپنی تلواروں کو پھر سے داغ دار نہ کریں۔

میں واقعی نہیں جانتا کہ اس واقعے کو اُن آیات کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے جو کہتی ہیں کہ قتل کے لیے کوئی معافی نہیں،

سوائے اس کے کہ شاید سچائی اتنی سادہ اور قطعی نہ ہو جتنی یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں

— کہ "کبھی، کسی حالت میں معافی نہیں”۔
یہاں تک کہ جنرل ہینڈ بک بھی اس بات کو تسلیم کرتیہے کہ "

دیگر حالات، جیسے جب کسی شخص کی ذہنی قابلیت محدود ہو”،

اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ کسی کی جان لینا لازمی طور پر "قتل” کے زمرے میں نہیں آتا

(دیکھیے 32.6.1.1)، اور اس کے باوجود بھی یہ راستہ موجود ہے کہ کسی شخص کی رکنیت کے حقوق بحال کیے جا سکتے ہیں (دیکھیے 32.16.1)۔

 تعلیم و عہد 19:1–20 ہمیں امید رکھنے کی ایک اور وجہ دے سکتا ہے

— یہاں چند اہم آیات دی جا رہی ہیں، لیکن میری تجویز ہے کہ آپ مکمل اقتباس کا مطالعہ کریں۔

۶ تا ہم، یہ نہیں لِکھا کہ اِس عذاب کی کوئی اِنتہا نہ ہو گی، بلکہ یہ لِکھا کہ لامحدود عذاب۔

۷ پھِر، یہ لِکھا ہے؛ اَبَدی سزا، پَس یہ باقی صحائف سے زیادہ واضح ہے،

کہ یہ کامِل طور پر میرے نام کے جلال کے لیے بنی آدم کے دِلوں پر موثّر ہو۔

۸ پَس، مَیں تُجھ سے یہ بھید بیان کرُوں گا،

کیوں کہ تیرے لیے یہ واجب ہے کہ اِس کو جانو جَیسا میرے رسُول جانتے ہیں۔

۹ مَیں تُم سے جو اِس کام کے لیے چُنے گئے ہو کہتا ہُوں،

جَیسے کسی ایک سے، کہ تُو میرے آرام میں داخل ہو۔

۱۰ پَس، دیکھ، خُدائی بھید، کتنا عظیم ہے یہ! پَس، دیکھ، مَیں اَزلی و اَبَدی ہُوں،

اور جو سزا میرے ہاتھ سے دی جاتی ہے ہمیشہ کی سزا ہے، پَس دائم میرا نام ہے۔ چُناں چہ—

۱۱ دائمی سزا خُدا کی طرف سے سزا ہے۔

۱۲ دائمی سزا خُدا کی طرف سے https://shorturl.at/Uipwqسزا ہے۔

یہ بات نہ صرف اس اصول کی ہماری سمجھ کو بدل دیتی ہے،

بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ خُداوند ہمارے ساتھ کس طرح کام کرتا ہے (آیت 7 پر غور کریں)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہم کسی صحیفے کے مفہوم کو غلط انداز میں سمجھ لیتے ہیں۔
اور یہی بات مجھے اپنے آخری نکتے کی طرف لاتی ہے:

اُمید کو تھامے رکھنے اور ہمت نہ ہارنے کا ایک حصہ یہ بھی ہے

کہ آپ کا بیٹا توبہ کرے، بالکل ویسے ہی جیسے المہ جونئیر نے بیان کیا ہے۔

ایلما 36:18

اور اَیسا ہُوا کہ جب مَیں اِس عذاب کے شکنجے میں یُوں جکڑا ہُوا تھا،

مَیں اپنے کئی گُناہوں کی یاد سے غمگیِن تھا، دیکھ،

مُجھے اپنے باپ کی وہ نُبّوت بھی یاد آئی جو اُس نے لوگوں کو یِسُوع مسِیح،

خُدا کے بیٹے کی آمد کی بابت کی تھی، کہ وہ جہان کے گُناہوں کا کَفارہ دے گا۔اب،

جب میرا دماغ اِس خیال سے دوچار ہُوا، تو مَیں نے اپنے دِل میں فریاد مانگی:

اَے یِسُوع، تُو جو خُدا کا بیٹا ہے

مُجھ پر رحم کر، مَیں جو کہ پَت کی سی کڑواہٹ میں ہُوں اور موت کی دائمی زنجیروں میں محصُور ہُوں۔

۱۹ اور اب، دیکھ، جُوں ہی مَیں نے یہ سوچا، تو مُجھے پِھر اپنی کوئی اذیت یاد نہ رہی؛ ہاں،

مَیں اپنے گُناہوں کی یاد کی بدولت عذاب میں مزید چھلنی نہ ہُوا۔

۲۰ اور آہ، مَیں نے کیا ہی خُوشی اور عجب نُور دیکھا، ہاں، میری رُوح خُوشی سے اِسی قدر زیادہ معمُور تھی جِس قدر کہ میری جان اذیت میں تھی۔

۲۱ ہاں، میرے بیٹے،

مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں، کہ میرے دُکھوں سے بڑھ کر زیادہ شدِید اور تلخ اور کُچھ نہیں تھا۔

ہاں، اَے میرے بیٹے، مَیں پھر تُجھ سے یہ کہتا ہُوں کہ دُوسری طرف، میری خُوشی سے بڑھ کر زیادہ بیش بہا اور شِیریں کوئی اور چِیز نہیں ہو سکتی تھی۔

کسی کو قتل کرنے کے بعد توبہ کرنا یقیناً آسان بات نہیں،

لیکن میری دُعا ہے کہ یہ آیات آپ اور آپ کے بیٹے کو یہ سمجھنے میں مدد دیں کہ اُسے توبہ کرنی چاہیے،

خدا کے احکام پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے،

اور اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے

— اور اپنے نجات دہندہ کے قریب آ کر اُس کی پیروی کرنی چاہیے۔
چاہے کچھ بھی ہو، ہر انسان کے لیے سب سے بہترین انجام اسی راستے میں ہے: توبہ کرو

، مسیح کے پاس آؤ، اور اُس کی پیروی کرو۔!

خدا آپ اور آپ کے خاندان کو برکت دے، ایلین، کہ آپ سب ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھامے رکھیں،

اور مل کر خُداوند کے حضور آئیں، تاکہ وہ آپ کو شفا دے اور آپ سب کو ایمان اور اُمید کے ساتھ جینے میں مدد دے۔