الفاظ ہماری زندگیوں میں اہم کیوں ہوتےہیں؟

دُنیا بھر کے بھائیو، بہنو، اور دوستو، میرے لیے اِس بڑی سامعین کی جماعت سے خِطاب کرنا اِعزاز کی بات ہے،

جن میں سے بُہتیرے ہماری کلِیسیا کے رُکن ہیں اور جن میں سے بُہت سے اِس مجلِسِ عامہ کی نشریات میں دوست اور نئے سامعین ہیں۔ خُوش آمدید!

اِس منبر سے دِیے جانے والے پیغامات کو اَلفاظ میں سُنایا جاتا ہے۔ یہ اَنگریزی میں سُنائے جاتے ہیں اور اِن کا ترجمہ قریب 100 مُختلف زُبانوں میں کِیا جاتا ہے۔

بُنیاد ہمیشہ ایک ہی ہوتی ہے۔ اَلفاظ۔ اور اَلفاظ بُہت اَہم ہوتے ہیں۔ مَیں دوبارہ یہ کہنا چاہُوں گا۔ اَلفاظ اَہم ہوتے ہیں!

وہ اِس بات کی بُنیاد ہیں کہ ہم کس طور پر بات چِیت کرتے ہیں؛

یہ ہمارے عقائد، اِعتقادات اور نُقطہِ نظر کی نُمایندگی کرتے ہیں۔

بعض اوقات ہم اَلفاظ بولتے ہیں؛ بعض اوقات ہم سُنتے ہیں۔ اَلفاظ لہجہ ترتیب دیتے ہیں۔ وہ ہمارے خیالات، احساسات اور تجربات کی اچّھی یا بُری آواز بنتے ہیں۔

بَد قِسمتی سے، اَلفاظ بے پَرواہ، بے دَھڑک، اور تکلیف دَہ ہو سکتے ہیں۔ ایک بار بول دِیے جائیں، تو ہم اُنھیں واپس نہیں لے سکتے۔ وہ گھائل کر سکتے،

سزا دے سکتے، ضَرب لگا سکتے، اور یہاں تک کہ تباہ کُن اَعمال کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ ہم پر بھاری بَھرکم ہو سکتے ہیں۔

دُوسری جانب، اَلفاظ فتح کا جشن منا سکتے، پُر اُمّید اور حوصلہ اَفزا ہو سکتے ہیں۔

وہ ہمیں ہماری راہ کی طرف دوبارہ سے پھیرنے، ربط پَیدا کرنے، اور رُجُوع کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ اَلفاظ ہمارے ذہنوں کو سچّائی کے لیے کھول سکتے ہیں۔

اِس واسطے، سب سے پہلے اور خصُوصاً، خُداوند کے اَلفاظ اَہم ہوتے ہیں۔

مورمن کی کِتاب میں، ایلما نبی اور اُس کی اُمّت نے قدیم اَمریکہ میں اُن لوگوں کے ساتھ نہ ختم ہونے والی جنگ کا سامنا کِیا جنھوں نے خُدا کے اَلفاظ کی پرواہ نہ کی، اپنے دِلوں کو

سخت کِیا، اور اپنی ثقافت کو بگاڑا۔ اِیمان دار لڑائی کر سکتے تھے، لیکن ایلما نے مشورت دی کہ:

”اَب چُوں کہ کلام کی مُنادی لوگوں کو وہ کرانے میں جو کہ راست ہے نہایت زیادہ راغب کرتی—ہاں اِس کا لوگوں کے دِلوں پر تلوار یا کسی بھی دُوسری چِیز سے جو اُن کے ساتھ واقع ہوتی زیادہ اَثر ہوتا—

سو ایلما نے خیال کیا، ضروری ہے کہ وہ خُدا کے پاکیزہ اَلفاظ سے ہی کوشِش کرے۔“1

”خُدا کے اَلفاظ“ دُوسرے تمام تاثرات سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ زمین کی تخلیق سے لے کر اَب تک اَیسا ہی ہوتا رہا ہے جب خُداوند نے فرمایا کہ: ”روشنی ہو جا: اور روشنی ہوگئی۔“2

مُنّجی کی طرف سے عہدِ جدید میں یہ یقین دِہانی کروائی گئی تھی کہ: ”آسمان اور زمِین ٹل جائیں گے؛ لیکن میری باتیں ہرگِز نہ ٹلیں گی۔“3

اور یہ: ”کہ اگر کوئی شخص مُجھ سے محبّت رکھتا ہے، تو وہ میرے کلام پر عمل کرے گا: اور میرا باپ اُس سے محبّت رکھے گا، اور ہم اُس کے پاس آئیں گے، اور اُس کے ساتھ سُکُونت کریں گے۔“4

اور یِسُوع کی ماں، مریم، کی طرف سے یہ فروتن گواہی مِلتی ہے: ”دیکھ مَیں خُداوند کی بندی ہُوں؛ میرے لیے تیرے قَول کے مُوافق ہو۔“5

خُدا کے کلام پر اِیمان لانا اور اُس پر عمل کرنا ہمیں اُس کے قریب لے جائے گا۔ صدر رسل ایم نیلسن نے وعدہ کِیا ہے، ”جب آپ اُس کے کلام کا مُطالعہ کریں گے، تو اُس کی مانِند بننے کی آپ کی صلاحیت میں اِضافہ ہو گا۔“6

کیا ہم سب ویسے نہیں بننا چاہتے، جیسے کہ گیت میں ہے، ”زیادہ بابرکت اور پاک—زیادہ، مُنّجی، تیری مانِند بنُوں“؟7

مَیں نوجوان جوزف سمِتھ کی منظر کشی کرتا ہُوں جب وہ اپنے گُھٹنوں کے بَل آسمانی باپ کے اَلفاظ سُنتا ہے: ”[جوزف،] یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ اِس کی سُنو!“8

ہم صحائف کے اَلفاظ میں ”اُس کی سُنتے“ ہیں، مگر کیا ہم اُنھیں محض صفحات تک محدُود رکھتے ہیں، یا ہم پہچانتے ہیں کہ وہ ہم سے بات کر رہا ہے؟ کیا ہم بدلتے ہیں؟

ہم شخصی مُکاشفہ اور رُوحُ القُدس کی ترغیبات میں، دُعا کے جوابات میں،

اور اُن لمحات میں جب فقط یِسُوع مسِیح، اپنے کفّارے کی قُدرت کے وسیلے سے، ہمارے بوجھ اُٹھا سکتا ہے، ہمیں مُعافی اور اِطمینان بخش سکتا ہے، اور ہمیں ”اپنی محبّت بھری بانہوں سے“ گلے لگا سکتا ہے۔9

دُوسرا، نبی کے اَلفاظ اَہم ہوتے ہیں۔

نبی یِسُوع مسِیح کی اُلُوہیت کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ اُس کی اِنجِیل کی تعلیم دیتے اور سب کے واسطے اُس کی محبّت کا اِظہار کرتے ہیں۔10 مَیں اپنی گواہی دیتا ہُوں کہ ہمارے زِندہ نبی، صدر رسل ایم نیلسن، خُداوند کے اَلفاظ سُنتے اور بولتے ہیں۔

صدر نیلسن اَلفاظ بولنے کا ہُنر رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے فرمایا ہے،

”عہد کی راہ پر گامزن رہیں،“11 ”اِسرائیل کو اِکٹھا کریں،“12 ”خُدا کو غالِب آنے دیں،“13 ”فہم و فراست کے پُل تعمیر کریں،“14 ”شُکر بجا لائیں،“15 ”یِسُوع مسِیح پر اپنے اِیمان میں اِضافہ کریں،“16 ”اپنی گواہی کی نِگہبانی کریں،“17 اور ”صالحِین بنیں۔“18

حال ہی میں اُنھوں نے ہم سے کہا ہے کہ ”اپنی سوچ آسمانی رکھیں۔“ ”جب آپ کسی کشمکش سے گُزریں،“ تو اُنھوں نے کہا،

”اپنی سوچ آسمانی رکھیں

جب کسی آزمایش میں پڑیں، تو اپنی سوچ آسمانی رکھیں! جب زندگی یا آپ کے پیارے آپ کو مایُوس کریں، تو اپنی سوچ آسمانی رکھیں!

جب کوئی قبل اَز وقت وفات پا جائے، تو اپنی سوچ آسمانی رکھیں …جب زندگی کے دباؤ آپ کی سوچوں پر حاوی ہو جائیں، تو اپنی سوچ آسمانی رکھیں! …

جب آپ اپنی سوچ آسمانی رکھتے ہیں، تو آپ کے دِل رفتہ رفتہ بدل جائیں گے، … آپ آزمایشوں اور مُخالفتوں کو ایک نئی روشنی میں دیکھیں گے، … [اور] آپ کا اِیمان بڑھے گا۔“19

جب ہم اپنی سوچ آسمانی رکھتے ہیں،

تو ہم ”چیزوں کو ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسی وہ واقعی ہوتی ہیں، … اور واقعی ہوں گی۔“20 اُلجھنوں اور فتنہ و فساد سے بھرے اِس جہان میں، ہم سب کو اِس نُقطہِ نظر کی ضرُورت ہے۔

ایلڈر جارج البرٹ سمِتھ، کلِیسیا کے صدر بننے سے بُہت پہلے، نبی کی تائید کرنے اور اُس کے اَلفاظ پر کان دھرنے کی بابت بات کرتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا: ”جب ہم اپنے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو ہم اپنے تئیں جو ذِمہ داری عائد کرتے ہیں … وہ نہایت مُقدّس ہے۔ … اِس کا مطلب ہے … کہ ہم اُس کے ساتھ کھڑے ہوں گے؛

ہم اُس کے لیے دُعا کریں گے؛ … اور ہم اُس کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشِش کریں گے جیسے خُداوند ہدایت فرمائے گا۔

21 دُوسرے لفظوں میں، ہم اپنے نبی کے اَلفاظ پر جاں فِشانی سے عمل کریں گے۔

ہماری عالم گِیر کلِیسیا کی جانب سے گُزشتہ روز تائید حاصل کرنے والے 15 نبیوں، رویا بِینوں،

اور مُکاشفہ بِینوں میں سے ایک کے طور پر، مَیں آپ کو نبی کی تائید کرنے اور اُس کے اَلفاظ کو قُبُول کرنے کا ایک تجربہ بتانا چاہتا ہُوں۔

یہ میرے واسطے یعقُوب نبی کی مانِند تھا، جس نے دوبارہ بتایا،”مَیں نے خُداوند کی آواز سُنی تھی جو مُجھ سے کلام کر رہا تھا۔“22

ایلڈر اور بہن ریس بینڈ تھائی لینڈ میں۔

گُزشتہ اکتوبر میری اہلیہ، میلینی، اور مَیں تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں تھے،

جب مَیں کلِیسیا کی 185ویں ہَیکل کی تقدِیس کی تیاری کر رہا تھا۔

۔23 میرے واسطے، یہ ذِمہ داری لاشعُوری اور فروتن بھی تھی۔ یہ جنُوب مشرقی ایشیا کے جزیرے پر پہلی ہَیکل تھی۔24

 خُداوند کا گھر بننے کے لیے یہ بڑی مہارت سے ڈیزائن کی

گئی تھی—

ایک چھ منزلہ، نو منارہ ڈھانچہ،25 خُداوند کا گھر بننے کے لیے ”بہترین طور“ پر تیار کیا گیا تھا۔ کئی ماہ تک مَیں نے تقدِیس پر غور کِیا ہے۔

میری رُوح جاں بدن میں اِک احساس بس گیا تھا کہ مُلک اور ہَیکلیں نبیوں اور رَسُولوں کے بازُوؤں میں سَما جاتیں ہیں۔

صدر تھامس ایس مانسن نے ہَیکل کا اِعلان کِیا26 اور صدر نیلسن نے اِس کی تقدِیس فرمائی۔27

بینکاک تھائی لینڈ ہَیکل۔

مَیں نے کئی ماہ پہلے تقدِیسی دُعا کو تیار کِیا تھا۔ اِن مُقدّس اَلفاظ کا ترجمہ 12 زُبانوں میں کِیا جا چُکا تھا۔ ہم تیار تھے۔ یا فقط یہ میری سوچ تھی۔

تقدِیس سے ایک رات قبل، مَیں تقدِیسی دُعا کے مُتعلق بے چین، اور فوری احساس کے ساتھ اپنی نیند سے جاگا۔

مَیں نے اِس ترغیب کو نظر اَنداز کرنے کی کوشِش کی، اِس سوچ سے کہ دُعا مُکمل اور تیار ہے۔ مگر رُوح نے مُجھے چین سے بیٹھنے نہ دِیا۔

مُجھے احساس ہُوا کہ کُچھ اَلفاظ موجُود نہیں، اور اِلہٰی طریقہِ کار کے وسیلے وہ مُکاشفہ میں مُجھے عطا کیے گئے، اور مَیں نے دُعا کے آخِر میں یہ اَلفاظ شامِل کِیے:

”کاش ہم اپنی سوچ آسمانی رکھیں، تاکہ ہم اپنی زِندگیوں پر اُس کے رُوح کو غالِب آنے دیں، اور ہمیشہ صالحِین بننے کی تَگ و دَو کرتے رہیں۔

28 خُداوند مُجھے ہمارے زِندہ نبی کے اَلفاظ پر دھیان دینے کی یاد دِہانی کروا رہا تھا:

”سوچ آسمانی رکھیں،“ ”رُوح کو غاِلب آنے دیں،“ ”صالحِین بننے کی تَگ و دَو کریں۔

“ نبی کے اَلفاظ خُداوند اور ہمارے واسطے اَہم ہیں۔

تیسرا، اور نہایت ہی اَہم، ہمارے اپنے اَلفاظ ہیں۔

میرا یقین کریں، ہماری اِیموجی سے بھری29 دُنیا میں، ہمارے اَلفاظ اہم ہوتے ہیں۔

ہمارے اَلفاظ مُعاون یا غضب ناک، پُر مَسرت یا خُود غرض، شفِیق یا بے لِحاظ ہو سکتے ہیں۔ جذباتی اَبتری کے لمحات میں، اَلفاظ دَرد ناک طور پر رُوح کی گہرائی تک سَرایت کر سکتے اور ڈس سکتے—اور وہیں ٹھہر سکتے ہیں۔

اِنٹرنیٹ، ٹیکسٹنگ، سوشل میڈیا، یا ٹویٹر پر ہمارے اَلفاظ، طاقت رکھتے اور ہماری خِلافِ نیت سمجھے جا سکتے ہیں۔

اِس واسطے مُحتاط رہیں کہ آپ کیا کہتے اور کس طور سے کہتے ہیں۔

ہمارے خاندانوں میں، بالخصُوص میاں، بیوی اور بچّوں کے ساتھ، ہمارے اَلفاظ ہمیں آپس میں جوڑ سکتے یا ہمارے درمیان پُھوٹ ڈال سکتے ہیں۔

مَیں تین سادہ فِقرات تجویز کرنا چاہُوں گا جو ہم اِک دُوجے کو جذباتی مُشکلات اور اِختلافات سے نِکالنے، اُٹھانے اور یقین دِہانی کروانے کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں:

”آپ کا شُکریہ۔“

”مَیں مَعذرت خواہ ہُوں۔“

اور ”مَیں آپ سے پیار کرتا ہُوں۔“

اِن سیدھے سادھے فِقرات کو کسی خاص یا ہنگامی واقعات کے لیے مُتعین نہ کریں۔

اِنھیں کثرت سے اور خُلُوصِ دِل سے اِستعمال کریں، کیوں کہ یہ دُوسروں کے لیے اَدب و احترام کو ظاہر کرتے ہیں۔

بات چِیت بے قدر ہوتی جا رہی ہے؛ اِس طرزِ عمل کی پیروی مَت کریں۔

ہم لِفٹ پر، پارکنگ میں، بازار میں، دفتر میں، قطار میں، یا اپنے پڑوسیوں یا دوستوں کو ”آپ کا شُکریہ“ کہہ سکتے ہیں۔

جب ہم کوئی غلطی کریں، میٹنگ میں شریک نہ ہوں، سالگِرہ کو بُھول جائیں، یا کسی کو دُکھ میں دیکھیں تو ہم ”مَیں مَعذرت خواہ ہُوں“ کہہ سکتے ہیں۔

ہم کہہ سکتے ہیں ”مَیں آپ سے پیار کرتا ہُوں“ اور اِن اَلفاظ میں یہ پیغام ہوتا ہے کہ ”مَیں آپ کے مُتعلق سوچ رہا ہُوں،“ ”مُجھے آپ کی فِکر ہے،

”مَیں آپ کی مدد کے لیے تیار ہُوں،“ یا ”آپ میرے لیے سب کُچھ ہو۔“

مَیں ایک ذاتی مِثال کا تذکرہ کرنا چاہُوں گا۔

شوہرو، دھیان لگائیں۔ بہنو، یہ آپ کی بھی مدد کرے گی۔ کلِیسیا میں اپنی کُل وقتی تفویض سے پہلے، مَیں نے اپنی کمپنی کے لیے وسیع پیمانے پر سفر کِیا ہے۔ مَیں نے کافی وقت دُنیا کے بُہت سے دُور دراز مقامات کا سفر کِیا ہے۔

اپنے دِن کے اِختتام پر، مَیں جہاں بھی ہوتا، مَیں ہمیشہ گھر فون کرتا تھا۔

جب میری زوجہ، میلینی، فون اُٹھاتی اور مَیں بات شُروع کرتا، تو ہماری گُفت گُو ہمیشہ ”مَیں آپ سے پیار کرتا ہُوں“ کے اِظہار کی طرف راغب کرتی تھی۔

ہر روز، وہ اَلفاظ میری جان اور میرے طرزِ عمل کے لیے لنگر کا کام کرتے تھے؛ وہ میرے واسطے بُرے عزائم سے تحفُظ بھی ہوتے تھے۔

”میلینی، مَیں آپ سے پیار کرتا ہُوں“

ہمارے مابین بیش قیمت بھروسے کا اِظہار تھا۔

صدر تھامس ایس مانسن فرمایا کرتے تھے، ”ثابت قدم ہونے کے لیے پاؤں، تھامنے کے لیے ہاتھ، حوصلہ دینے کے لیے دماغ، اِلہام بخشنے کے لیے دِل،

اور بچانے کے واسطے جانیں موجُود ہیں۔“30 یہ کہنا ”آپ کا شُکریہ،“

”مَیں مَعذرت خواہ ہُوں،“ ”مَیں آپ سے پیار کرتا ہُوں“ سب کُچھ اَنجام دے گا۔

بھائیو اور بہنو، اَلفاظ واقعی اَہم ہوتے ہیں۔

مَیں وعدہ کرتا ہُوں کہ اگر ہم ”مسِیح کے کلام پر ضیافت مناتے ہیں“31 جو نجات کی جانب لے جاتی ہے، ہمارے نبی کے اَلفاظ جو ہماری راہبری اور حوصلہ اَفزائی کرتے ہیں،

اور ہمارے اپنے اَلفاظ جو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا عزیز ہے، تو آسمان کی قُوتیں ہم پر اُنڈلی جائیں گی۔

”مسِیح کا کلام تُمھیں وہ ساری باتیں بتائے گا جو تُمھیں اَنجام دینی ہیں۔

32 ہم آسمانی باپ کی اولاد ہیں اور وہ ہمارا خُدا ہے، اور وہ توقع کرتا ہے کہ ہم ”فرِشتوں کی سی بولی“ بولیں33 رُوحُ القُدس کی قُدرت سے۔34

مَیں خُداوند یِسُوع مِسیح سے پیار کرتا ہُوں۔ عہدِ عتیق میں یسعیاہ نبی کے اَلفاظ میں وہ، ”عجیب، مُشیر، خُدایِ قادِر، اَبَدیت کا باپ، سلامتی کا شاہزادہ“ ہے۔35

 اور جیسا کہ یُوحنّا رَسُول نے واضح کِیا کہ، یِسُوع مسِیح بذاتِ خُود کلام ہے۔36

مَیں اِس کی گواہی بحیثیتِ رَسُول دیتا ہُوں جس نے خُداوند کی اِلہٰی خِدمت—اُس کے کلام کا اِعلان کرنے—

اور اُس کے خاص گواہ کے طور پر کھڑے ہونے کی بُلاہٹ پائی ہے۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔